مسئلہ کشمیر، کشمیری قیادت اور عوام …بشیر اللہ انقلابی

نوے کی دہائی سے بھارت کے ظلم سے تنگ آکر آزاد جموں وکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہونیوالے مہاجرین کم وبیش 42ہزار آج بھی اس امید کے ساتھ زندگی کے سفر پر گامزن ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور پھر یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے، یہی امید لیئے سینکڑوں مہاجرین وقت مقررہ پردنیا سے رحلت فرما گئے، تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں بے شمار کشمیری نوجوانوں نے جام شہادت نوش کی، آزاد جموں وکشمیر میں بنی خیمہ بستیوں میں آج بھی شہداء کے بچے اور بیوہ خواتین بھی باقی مہاجرین کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ 2003 میں پاکستان بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن(سیز فائر لائن) کے اردگرد باڑ لگا دی، یوں کشمیری قوم پر صبر کا نیا امتحان شروع ہوگیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر پاک بھارت کشیدگی چلتی رہی، مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے مظالم انتہاء کو پہنچ رہے تھے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو شہید کرنا معمول بنتا گیا اور برہان وانی شہید جیسے نوجوان جو ہندوستانی فورسز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہے تھے انہیں شہید کردیا گیا، پاکستان کے معاشی حالات کے باعث تحریک آزادی کشمیر کا مسئلہ آگے بڑھنے کے بجائے سرد خانے کی نذر ہوتا دکھائی دیا، یورپی یونین سمیت کئی تنازعات دنیا نے حل کیئے مگر مسئلہ جموں وکشمیر حل ہونے کے بجائے مسلسل دب کر رہ گیا.
بھارت نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 05 اگست 2019 میں عملاً مقبوضہ جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا، وہاں کے حالات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے، لاک ڈاؤن، کرفیو لگا کر مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہی ختم کردیا گیا، بھارت کشمیریوں پر ظلم کرتا گیا، امید بھری نظریں جو کشمیری قوم کی لائن آف کنٹرول کے اس پار آزاد جموں وکشمیر اور پاکستان کی طرف تھیں وہ بھی بالاخر ختم ہوتی نظر آئیں کیونکہ یہاں جو احتجاج وغیرہ ہوتے تھے اب وہ کشمیری قوم اس سے مطمئن ہونے والی نہیں تھی،کیونکہ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے نہتے عوام پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا، انہیں گھر کے اندر رہنے پر مجبور کردیا، کاروبار مکمل تباہ کیئے گے، لوگوں کو معاشی طور پر انتہائی کمزور کر دیا گیا تھا۔ ایسے حالات میں ایک توانا آواز دنیا تک جو اٹھنی چاہیے تھی وہ شاید نہیں اٹھ سکی۔ یوں مقبوضہ جموں وکشمیر میں شعلہ سے آتش فشاں بنتی تحریک کمزور صورتحال اختیار کرگئی جس پر ایک لمحہ بھی بھارت نے ضائع نہیں کیا اور وہاں پر بھارت سے لوگوں کو لا کر مقیم بنانا شروع کردیا گیاتاکہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیری اکثریت کو اقلیت میں بدل سکے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیریوں کی توانا آوازیں (حریت کانفرنس قیادت یاسین ملک، آسیہ اندرابی وغیرہ) کو جیلوں میں بند کردیا گیا، یاسین ملک کو سزا بھی سنا دی گئی، ہزاروں بے گناہ کشمیری بھارت کی جیلوں میں آج بھی سسک رہے ہیں مگر ان کی آواز بلند کرنے والا اب دنیا میں کوئی نظر نہیں آرہا ہے، آزاد جموں وکشمیر کی قیادت نے کبھی ان مظلوم کشمیریوں کی تحریک کو سنجیدہ لیا ہی نہیں اور ہاں صرف مسئلہ جموں وکشمیر پر کوئی آنچ نہ آئے یہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں مقبوضہ جموں وکشمیر میں کیا ہو رہا ہے اس پر صرف بیانات دے کر سر سے اتار دیتے ہیں.
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو زبان زد عام ہے مگر افسوس کہ نازک موڑ سے آگے قیام پاکستان سے لے کر آج تک نہ بڑھ سکے۔ یوں اب وہ جنون جو کبھی گلی گلی، بستی بستی نظر آتا تھا اب عام آدمی بھی یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ شاید اب کے بچھڑے (لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے کشمیری) کبھی خوابوں میں ملیں۔ ڈیجیٹل دور میں جہاں آج ایک بھی بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی (ماسوائے 10 سال سے کم عمر بچوں کے) سب کو بہت کچھ سمجھ آچکا ہے، سورج کو اب انگلی کے پیچھے چھپانا بہت مشکل ہے۔ ایسے حالات میں کچھ لوگوں کو اپنے روشن مستقبل کی فکر لگ گئی،تاہم زمینی حالات بتا رہے ہیں کہ 85 فیصد لوگ آج بھی (کشمیری مہاجرین) صرف گزارہ الاؤنس پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔خبر ہے کہ وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر نے حریت کانفرنس (اسلام آباد) کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا ہے میرے نزدیک یہ اخراجات وہاں کرنے کے بجائے کسی خیمہ بستی میں مستحق خاندانوں میں تقسیم کردیئے جاتے تو کم از کم ان کا رمضان اچھے طریقے سے نکل جاتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر سردار تنویر الیاس نے مہاجرین کے حالات کے پیش نظر مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے گزارہ الاؤنس میں معقول اضافہ کیا یقینا مہاجرین اسے آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لہذا ان خیمہ بستیوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جنہیں اس کی اشد ضرورت بھی ہے۔اب خبریں گردش کررہی ہیں کہ مہاجرین کو آزاد جموں وکشمیر میں مستقل مقیم بنانے کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے جس کیلئے ایک فیملی کو 5 مرلے کا پلاٹ، 10لاکھ روپے یکشمت ادائیگی اور مکان بنانے کیلئے قسطوں میں روپے دیئے جائیں گے۔ ساری صورتحال کے باوجود آزاد جموں وکشمیر کا کوئی بھی باشندہ ریاستی درجہ اول مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام سے نظر چرا نہیں سکتا کیونکہ آزاد جموں وکشمیر میں جو کچھ اسٹیٹس انجوائے ہورہاہے، اسمبلی ہے سب کچھ یہ تحریک آزادی جموں و کشمیر کی وجہ سے ہے۔ لہذا جو گزر گیا سو گزر گیا مگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے، سب کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا وہوگا.
مہاجرین جموں وکشمیر 1989 ء و مابعد کی مستقل آبادکاری وقت اور حالات کے مطابق انتہائی ناگزیر ہے لہذا 5مرلے کے پلاٹ کے بجائے ایک فیملی کیلئے 1کنال 10لاکھ روپے کے بجائے 20لاکھ روپے اور اس کے ساتھ مکان بنانے کیلئے بے شک قسطو ں میں ہی پیسے ضرور دیئے جائیں تاکہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں، یہ اُس رقبے اُس علاقے اُس گھر کا نعم البدل تو نہیں جو یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کی محبت میں ہجرت کر کے یہ لوگ آئے ہیں مگر ان کے اُن زخموں پرمرہم ضرور رکھاجائے گا، جو ایک انصار سے کوئی مہاجر بھائی توقع کر سکتا ہے اور پھر ہم سب کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پاکستان کی مضبوطی کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں، انفرادی فیصلوں پر اجتماعی فیصلوں کو اہمیت دیں، چونکہ پاکستان کامستحکم ہونا ہی مسئلہ جموں وکشمیر کے دیر پا حل میں معاون ثابت ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں