وادی لیپا،آزادکشمیر کا دفاعی حصار..عبدالرشید کرناہی ایڈووکیٹ

وادی لیپا کا جغرافیائی محل وقوع 14ہزار فٹ بلند پہاڑی سلسلہ،توتمار گلی ے لیکر شمس بری کی رینج سے گزرتے ہوئے نتی چھنا گلی موجودہ سادھنا گلی مقبوضہ کشمیر یہ پہاڑوں کا سلسلہ وادی لیپا اور بجلدار سے ہوتا ہوا مقبوضہ کشمیر میں حالیہ سادھنا گلی پر پہنچتا ے،پہاڑوں کے اس حصار کےاندر وادی نوکوٹ،لیپا،بجلدار سے لیکر لبگراں تک یہ وادی 16کلومیٹر لمبیاور 4سے چھ میل تک کشادہ میدانوں، کھلیانوں، اوردھان اورمکئی کی فصلوں سےمزین ہے، وادی کے بیچوں وبیچ نالہ قاضی ناگ جو کہ قاضی ناگ پہاڑ سے نکلکر وادی نوکوٹ سے لیکر ٹیٹوال تک بہتا ہے اوروادی نیلم میں دریائے کشنگنگا میں غرقاب ہوتا ہے، اس وادی کوہندوستانی فوج کی یلغار سے بچانےکیلئے جن شہداء نے قربانیاں دی ہیں اُن کا نام غائب کردیا گیاہے اوراُنکی قربانیوں کو فراموش کردینا انتہائی احسان فراموشی ہے، وادی لیپا کےمرد مجاہد عبدالجبار ملک جو کہ 1965ء میں مجاہد کمپنی کے کمانڈر تھے جب ہندوستانی فوج نے لبگراں کے سامنے کونتر پہاڑی پر قبضہ کیا تو اُس وقت وہاں پاکستان آرمی کے بٹالین کمانڈر کرنل ڈوگر نے جبار ملک کمانڈر مجاہد کمپنی جو کہ اُسی علاقہ کے سپوت تھے کو حکم دیا کہ کونتر کے سامنے والے پہاڑ جو سائیں مٹھا بابا کی زیارت سے شروع ہو کر کافر کھن تک جاتی ہے اس
رینج کو خالی کرنے کا حکم ملا،لیکن ملک جبار نے راقم کی موجودگی میں بٹالین کمانڈر کو کہا کہ میں یہ اپنی دفاعی پیکٹ خالی نہیں کرونگا بے شک آپ میرا کورٹ مارشل کروا دیں، چنانچہ اس مرد مجاہد کی سرفروشی کی وجہ سے بھارتی فوج کا سائیں مٹھا کی زیارت سے لیکر کافرکھن کے راستے پیر چناسی پہنچنے کا مقبوضہ کشمیر کے اندرون کاروائیوں میں مشغول تھا،اُن کی اس غیرت مند اوربہادری کی وجہ سے وادی لیپا چنیاں سے لیکر لبگراں تک کا علاقہ بھارتی قدمی اورقبضے سے بچ گیا، اسی سلسلہ میں ایک اورمجاہد جو بجلدار کے رہنے والے تھے صوبیدار عبیداللہ اعوان بھارتی فوج سے جنگ کرتے ہوئے کئیاں کے میدان میں شہید ہوگیا،اس کے علاوہ کئی شہداء جو اُس علاقہ سے شہیدہوئے اُن کو شہداء کی فہرست میں مظفرآباد میں لگنے والے یادگاری کتبوں میں نہیں لکھا گیا جوکہ وادی لیپا کے ساتھ سوتیلا سلوک ہے۔ وادی لیپا کی تعمیروترقی کے سلسلہ میں 1979سے لیکر 1990ء اوراُس کے بعد راقم نے تقریر کرتے ہوئے لیپا ویلی کو بوائز انٹر کالج اورتین وظائف منظورکروائے،اُس کے بعد 1992ء میں جب میاں نواز شریف سابق وزیراعظم (وقت) لیپا ویلی گئے توان سے لیپا ویلی کیلئے میڈیکل اورانجینئرنگ کی نشستیں منظورکروائیں جس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے عدالت العالیہ آزادکشمیر میں رٹ کی جو کہ جسٹس خواجہ سعید نے منظورکی جس کی اپیل سپریم کورٹ میں وادی لیپا کے حق میں ہوئی اس طرح وادی لیپا سے آج تک اس سیٹوں سے نامزد ہونے والے طلباء اورانجینئر 30ڈاکٹر اور 20انجینئر تعلیم مکمل کرکے برسرروزگار ہیں۔اسی طرح 1990ء میں وزیراعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات مرحوم سے راقم نے لیپابوائز ڈگری کالج، اورگرلزڈگری کالج منظورکروائے جن پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے عدالت العالیہ میں رٹ دائر کی جو کہ 16جون 2005ء میں جسٹس غلام مصطفی مغل نے منظور کی اور اس کی اپیل حکومت کی طرف سے ہوئی جو کہ سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے راقم کے حق میں فیصلہ دیا.اس طرح 2005ء کے اس فیصلے کے نتیجہ میں وادی لیپا میں ڈگری کالج اورگرلز ڈگری کالج قائم ہوئے۔1962ء میں جب راقم مظفرآباد میں کالج میں زیرتعلیم
تھا اُس وقت جناب خورشید حسن خورشید سابق صدرآزادجموں وکشمیر کو لیپا ویلی کے دورہ پر ریشیاں سے لیپا ویلی تک پیدل لیکر گیا اور وہاں جلسہ عام میں ریشیاں سے لیپا تک سڑک نکاسی کی منظوری کروائی جوکہ حکومت نے یہ سڑک مسلم کانفرنس کے دور میں عبداللہ خان ٹھیکیدار کے ذریعے مکمل کروائی۔طویل عرصہ کے بعد اس مرتبہ جب وزیرحکومت دیوان چغتائی وادی لیپا حلقہ نمبر 7سے الیکشن لڑ کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو انہوں نے لیپا ویلی کے بڑے منصوبے جوکہ رہ گئے تھے اُن کو بجٹ میں شامل کرکے لیپا ویلی کے لوگوں پر احسان عظیم کیا جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں