پندرہویں ترمیم کا معمہ..۔جسٹس(ر) منظور حسین گیلانی

سوشل میڈیا پر آزاد کشمیر کے
آئین کی پندرہویں ترمیم کے لئے آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری کے نام منسٹری کشمیر افئیرسے کا ایک خط گردش کررہاہے جس میں آزاد کشمیر اور اس کے اندر حکومت پاکستان کے معاملات کو صوبائی اور فیڈریشن کی طرز پہ ڈھالنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دیے کر پندرہ دن کے اندر یہ کام مکمل کرنا ہے- سوشل میڈیا پر الگ سے اس بل کا مسودہ بھی گردش کررہا ہے جو 2019 میں اسی طرح کے ایک مسودے کی طرح کا ہے تاہم اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سیکریٹری قانون کی سابقہ دفعات اور پندرہویں ترمیمی بل کا تقابل بھی شامل ہے – اس میں چند اسمبلی ممبران کے نام بھی درج ہیں جو شاید اس کمیٹی کے ممبر ہیں – لیکن یہ بل تادم حکومتی پارلیمانی پارٹی کے ممبران یا کسی اور ممبر کی جانب سے آئین کے مطابق اسمبلی قواعد کار کے تحت پیش نہیں ہواہے۔
اس بل کی خاص بات راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کے دوران کی جانے والی تیرویں ترمیم کے تحت آزاد کشمیر کونسل سے متعلق وہ ساری ترامیم منسوخ کر کے کونسل کے قانون سازی، پالیسی سازی، مالی اور انتظامی اختیارات اور جوائنٹ سٹنگ کو بحال کرنے کی بھر پور کوشش ہےتاہم ابھی تک اس کی اونر شپ کسی نے قبول نہیں کی –
بل کے تحت مجوزہ مسودہ کی خاص خاص باتوں میں principles of policy کی دفعات کو نہیں چھیڑا گیا جو جوں کی توں ہیں تاہم کونسل کی تشکیل میں وزیر خارجہ ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کو شامل کیا گیا ہے ، آئین میں ہر طرح کی ترمیم کے لئے حکومت پاکستان کی پیشگی اجازت لازمی قرار دی گئ جبکہ اس سے پہلے صرف دفعات 31-33 اور 56 کی ترمیم کی اجازت نہیں تھی ، دوران صدارت اگر صدر کی موت واقع ہوجائے تو نئے صدر کا انتخاب صرف بقیہ مدت تک کے لئے ہوگی ، وزراء کی تعداد اسمبلی ممبران کی کل تعداد کی تیس کے بجائے پچاس فیصد کی گئ ہے، کونسل کو اپنے اختیارات کو آزاد کشمیر حکومت کو تفویض والی دفعہ حذف کی گئ ہے، ایمر جنسی کے نفاذ پر بنیادی حقوق کے معطلی کے متعلق کی دفعہ بحال رکھتے ہوئے اس دوران اس کو اسمبلی میں پیش کرنے اور اسمبلی کو توڑنے کا اختیار حذ ف کیا گیا ہے ، کشمیر منسٹری کو پندرہویں ترمیم منظور ہونے کے نوے دن کے اندر کشمیر کونسل کو استوار اور بحال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے – بنیادی حقوق کی ایک دفعہ میں ریاست کا لفظ حذف کر کے آزاد جموں و کشمیر شامل کیا گیا ہے- ہندوستانی مقبوضہ ریاست کے جموں ، کشمیر اور لداخ کے علاقوں کی علامتی نمائندگی کے لئے بارہ نشستوں کا اضافہ کیا ہے جو خالی رہینگی – آخر الذکر مہاجریں کی بے تکی نمائندگی کے زریعہ تو موجود ہے ، اچھا ہوگا اگر اس کو ختم کرکے علامتی نمائیندگی والی نشستوں کو اور بڑھا دیں –
اس میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ پندرہویں ترمیم کی کوشش کی ساری بھاگ دوڑ اور کاروائی آزاد کشمیر کونسل سے لئے گئے مالی اور انتظامی اختیار سے محروم ہونے والی منسٹری کشمیر افئیرز اور اس کے ذیلی ادارے کشمیر کونسل کی بیوروکریسی اور ممبران کی کارستانی ہے جو حکومت پاکستان کے کچھ باثر اداروں کے زریعہ ایسا کررہے ہیں کیونکہ آزاد کشمیر سےاربوں روپے کی مد میں حاصل ہونے والے اِنکم ٹیکس جس میں سے چالیس / پچاس فیصد رقم تو کلکشن کرنے کے دوران اس کے اہلکار ٹیکس دہندگان سے مل کے کھا لیتے تھے اور جمع کی گئ رقم سے چالیس فیصد تو وہ آئینی اور قانونی طور پر کاٹ لیتے تھے جس کو اپنے اہلکاروں کی تنخواہ ، الاؤنسز اور مرکزی حکومت کے اہلکاروں کے برابر مراعات لینے میں کاٹ لیٹے تھے، کچھ حصہ فرضی ترقیاتی سکیموں پر کمیشن اور باقی بدوں کوئی کام کئے ہضم کر لیتے تھے ، باقی بچہ کھچا ساٹھ فیصد حکومت آزاد کشمیر کو ترسا ترسا کے معمولی قسطوں میں ناک رگڑا کر جاری کرتے تھے – یہ اختیار آزاد کشمیر میں آنے کے بعد اِنکم ٹیکس کی مد میں رقم دو گنا سے بھی زیادہ ہوگئ اور سب کی سب آزاد کشمیر حکومت کے خزانے میں جمع اور اس سے خرچ ہوتی ہے – یہاں بھی کوئی فرشتے نہیں ، اس میں بھی لیکیج ہوتی ہے لیکن میرے خیال میں وہ چالیس فیصد نہیں ہوتی ہوگی جو کونسل پہلے ہی کاٹ لیتی تھی اور بقیہ فرضی سکیموں کے نام پر ہڑپ کرتی تھی ۔میری اطلاع کے مطابق جب سے یہ مد آزاد کشمیر میں آئی ہے اسکو اور ڈرا فٹ لینے کی ضرورت نہیں پڑی نہ ہی کونسل سے اپنی ہی رقم ترلے کرکے لینا پڑی –
حکومت پاکستان کی بیوروکریسی آزاد کشمیر میں اپنے چہیتوں کو نوازنے کے لئے کشمیر کونسل کے زریعہ آزاد کشمیر حکومت کو بلیک میل کرتی تھی اب اس سے آزاد کشمیر حکومت آزاد ہوکے کام کرتی ہے گوکہ کچھ ان دیکھے ہاتھ پہلے کی طرح موجود بھی ہیں – کونسل کے ان غیر معمولی اختیار نے آزاد کشمیر کی حکومت کو مفلوج کر کے ایک متوازی حکومت بنا لی تھی جو نہ تو آزاد کشمیر اسمبلی کے پاس جواب دہ تھی نہ ہی پارلیمنٹ کے پاس – اس ترمیم سے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان رسہ کشی اور کشیدگی جو کونسل پیدا کرتی تھی وہ بھی محدود ہوگئ ہے –
جہاں تک منسٹری کشمیر افئیرس کے مکتوب مورخہ یکم جولائی2022 کا تعلق ہے یہ پندرہویں ترمیم کے مسودے سے مطابقت نہیں رکھتا – مکتوب میں آزاد کشمیر کے اندر حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے معاملات کو پاکستان فیڈریشن اور صوبائی طرز حکومت پہ ڈھالنے کے لئے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے نمائندوں پر ایک کمیٹی تشکیل دیے کر یہ کام پندرہ دن کے اندر یہ مکمل کرنا ہے-
آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ آئینی تعلقات کو صوبائی اور فیڈریشن کی طرز پر استوار کرنے کے لئے کونسل کا کوئی کام نہیں نہ ہی اس سے آزاد کشمیر کے آئین کا کوئی تعلق ہے۔اس کے لئے پاکستان کے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے جس کے تحت آئین کی دفعہ 257 کے تابع سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق تک فیڈریشن میں وہی اختیارات، زمہ داریاں اور حقوق حاصل ہونگے جو باقی صوبوں کو حاصل ہیں اور فیڈریشن کی بھی دفعہ 257 کے تحت آزاد علاقوں میں فیڈریشن جیسے اختیارات ، حقوق اور زمہ داریہ حاصل ہونگی – اس طرح ان علاقوں کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل طلب تنازعہ قرار دے کر ایک آئینی اور قانونی حیثیت حاصل ہو جائیگی ، حکومت پاکستان کا ان علاقوں میں موجودگی کا آئینی مداخلت کا کوئی جواز پیدا ہوگا جو اس وقت نہیں ہے کیونکہ ریاست پاکستان کے آئین کے تحت یہ پاکستان کے حصے نہیں نہ ہی یہاں کے لوگ اس طور پا کستان کے شہری ہیں – اس مقبوضہ حیثیت اور خلاء کی وجہ اور دلیل کی بناءپرہندوستان نے پوری ریاست کو اپنے آئین کے تحت اپنا حصہ اور صوبہ بنایا ہے، سیاہ چن گلیشر کے علاقے کو ہضم کر لیا اور کرگل کو پاکستانی قبضے سے خالی کرایا – اگر خدا نخواستہ دوبارہ ایسی کوئی صورت پیدا ہوئ تو ہندوستان کا موقف پھر یہی ہوگا جو اگست 2019 کی واردات کے بعد زیادہ مضبوط ہوگا اور جس طرح اس واردات پر پاکستان اور کشمیریوں کی بات دنیا نے نہیں سنی اس کے بعد بھی یہی کیفیت ہوگی – حکومت پاکستان کے 1971 اور 1987 کے نوٹیفکیشن یہی ہیں ، آزاد کشمیر میں سر گرم عمل پاکستان جماعتوں کے منشور میں سوائے پارلیمنٹ میں نمائیندگی کے باقی سب آئینی اداروں میں نمائیندگی کا مطالبہ اور یہی وعدہ ہے- پاکستان کی سیاسی اور حکومتی قیادت ، سول اور فوجی بیوروکریسی اگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مفاد میں ایسا نہیں کرتی نہ کرے پاکستان کی سلامتی میں اس کا ادراک کرکے یہ کرے- کچھ لوگوں کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ اس سے پاکستان کی حیثیت ہندوستان جیسی اور آزاد علاقوں کی مقبوضہ ریاست جیسی ہوگی – ہندوستان نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انکار کرکے ریاست کا انضمام کیا ہے جو حتمی نوعیت کا بتلایا جارہا ہے جبکہ یہاں ایسا نہیں – یہاں کی متنازعہ حیثیت قائم ہے وہاں کی نہیں ، یہاں پاکستان کا عمل دخل لوگوں کی مرضی سے ہے وہاں ان کی مرضی کے خلاف نو لاکھ فوجوں کے زریعہ ہورہا ہے –
اس کی باوجود ہندوستان نے ریاست کو ہندوستانی ریاستوں کے برابر رکھ کر قانون سازی، فیصلہ سازی اور حکومت سازی میں شامل کیا ہے جبکہ یہاں ایسا نہیں – اس کا پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کو ادراک کرنا چاھئے – آزاد کشمیر کی قومی آمدن ، محاصل ، معدنی اور آبی زخائر کو ہڑپ کرنے کے لئے اختیارات کی رسہ کشی اور دوڑ نہ لگائیں زمینی حقائق اور قومی مفاد کی روشنی میں دور رس فیصلے کریں – پاکستان کے ساتھ اس طرح کا مشروط رشتہ قائم ہونے سے ریاست کے آزاد حصوں کو ریاست پاکستان کی فیڈریشن اور سپریم کورٹ کی گارنٹی میسر آجا ئیگی جس کی عدم موجودگی میں پدندرہوں اور اس طرح کی دوسری من مانی کاروائیوں کی گنجائش نہیں رہے گی –
اگر پاکستان کی حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اس کو مناسب نہ سمجھیں تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 24 اکتوبر 1947 کے ڈیکلریشن والی یا سلامتی کونسل کی لوکل اتھارٹی والی حکومت قائم کریں تاکہ ان اتھارٹیز کا تعلق برائے راست یو این کی سلامتی کونسل سے قائم ہو جس سے مسئلہ کشمیر کو بھی مہمیز ملے گی۔ بے یقینی آزادی اور غلامی والی کیفیت پاکستان اور آزاد حصوں کی سلامتی اور لوگوں کے حقوق کی نفی ہے۔ اس سے ریاست کے آزاد حصوں کو من مانی کاروائیوں سے سلامتی کونسل کی گا رنٹی مل جائیگی اور معاملات میں استحکام پیدا ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں