‘پونچھ میڈیکل کالج اور ہم۔۔۔ پروفیسر عائشہ یوسف

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
کالی راتوں کے چھٹتے ہی، یخ بستہ ہواؤں کے تھمتے ہی، اوائل مارچ میں ہر سال کی طرح باد بہاری کے مست و سبک خرام جھونکوں کے سنگ سنگ، تازہ و نوخیز گلوں میں رنگ بھرنے کی تقریب۔۔۔۔ گویا کاروبار گلشن کو ولولہ تازہ کے سپرد کر دینے کی ایک مشق سی ہو جسے جشن نوروز کی طرز پر بڑے تزک و احتشام سے بعنوان ”white coat ceremony” منایا جاتا ہے۔۔۔۔ یہاں قوم کے مسیحاوں کو سفید کوٹ پہنا کر ان پر عائد ہونے والی اہم ترین ذمہ داریوں کا احساس دلوں میں راسخ کیا جاتا ہے۔ جہاں قوم کے معماروں کو مسیحائی کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ مبتلائے درد والم، کی اذیت اور چبھن کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چن لیں ان کو سکون اور آرام دیں۔۔۔۔۔ یہاں ان کا باقاعدہ اور بھرپور خیرمقدم کرکے انہیں یہ بتلایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کا کتنا فعال حصہ ہیں اور وہ کس قدر مقدس شعبہ سے منسلک ہو چکے ہیں کہ جس کی حرمت مرتے دم تک ان پر واجب ہے۔ جس کا تقدس بحال رکھنا ان کے ڈاکٹر بن جانے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
پونچھ میڈیکل کالج راولاکوٹ (الحاق پاکستان میڈیکل کمیشن، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور) شعبہ طب میں ضلع پونچھ کی واحد تعلیمی درس گاہ ہے جہاں 2013 میں پڑھائی کا آغاز ہو گیا تھا۔ مگر کالج اپنی عمارت اور دیگر بنیادی سہولیات سے تاحال محروم ہے۔ پونچھ میڈیکل کالج۔۔۔ ہمارے وجود کی طرح ناگزیر اور اہم ادارہ۔۔۔۔ دستور یہی ہے کہ ادارے ہمارا تشخص اور قومی پہچان ہوا کرتے ہیں۔ انہی پر ہمارا بننا اور بگڑنا موقوف ہے۔
14 مارچ 2023 کی صبح، ساڑھے دس بجے پونچھ میڈیکل کالج کے ہال میں اس سال گیارہویں وہائٹ کوٹ تقریب انعقاد پذیر ہوئی۔ وسیم اعظم اس بزم کی لحظہ لحظہ کارروائی حاضرین محفل کی سماعتوں اور بصارتوں کی نذر کرتے رہے۔ دوران تقریب میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شبیر چوہدری اور ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر واجد علی خان کرسی صدارت پہ موجود رہے۔ ادارہ کے پرنسپل کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحید، پروفیسر ڈاکٹر عبدالمنعم، پروفیسر ڈاکٹر ندیم خان، ڈاکٹر شکیل صادق، ڈاکٹر اظہر علی کاظمی اور ڈاکٹر محمد ندیم خان نے طلباء کو وہائٹ کوٹ پہنائے جب کہ ڈاکٹر شازیہ صدیق، پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ، ڈاکٹر مصباح بتول، ڈاکٹر حفضہ قمر اور ڈاکٹر ذرینہ اکمل نے طالبات کو وہائٹ کوٹ پہنانے کے فرائض انجام دئیے۔ ازاں بعد ادارے کے پرنسپل صاحب نے طلباء و طالبات سے اپنے فرائض کی وفاداری کا حلف لیا۔
جیسے قوموں کی تاریخ اک تسلسل کے ساتھ اتار چڑھاو کی کہانی سناتی ہے بالکل ویسے ہی اداروں کی زندگی بھی حالات و واقعات کے مدو جذر سے عبارت ہوتی ہے۔ تاہم ادارے کسی بھی قوم کی بقا، ترقی اور دوام کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔
پونچھ میڈیکل کالج بھی اپنے ابتدائی دنوں سے ہی مختلف مشکلات کا شکار رہا جسے مدبر قائدین اور عمائدین شہر نے کسی بھی طرح اس لائق بنایا کہ یہ ادارہ بخوبی اپنے فرائض انجام دے سکے۔
خطبہ استقبالیہ کے طور پر میڈیکل کالج کے قیام کی تفصیلات و جزئیات ہوں یا ہر گزرتے دن کے ساتھ کالج کی کارکردگی اور ترجیحات کا تعین، کالج کے اساتذہ کا تعارف ہو یا طالب علموں کے لیے پیشے کی حرمت سے متعلق سنہری افکار و خیالات پر مبنی کلیدی جملے۔۔۔ ڈاکٹر سردار شبیر احمد نے ہر ایک موضوع کے ساتھ کماحقہ انصاف کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس ادارے کو ضلع بھر کے لیے نعمت غیر مترقبہ قرار دیا بل کہ دور دیس جا کر اپنا مستقبل تابناک بنانے والوں کی نسبت ادارے کے لیے اپنا سب کچھ تیاگ دینے والوں کی ریاضتوں کو سلام پیش کیا جن کی دن رات کی محنت، لگن اور خوں فشانی ان نہالوں کو سینچنے میں مصروف ہے جن کو مستقبل قریب میں انسانیت کے دکھوں کا مداوا بننا ہے۔ ڈاکٹر شبیر احمد نے اس ادارے کو ”اس پار” سے ”اس پار” تک کشمیر کے علاوہ پاکستان کی چاروں اکائیوں کی نمائندگی کے لیے ایک خوب صورت ”گلدستہ” قرار دیا۔ جہاں ہر ایک کے لیے نشستوں کی تعداد مقرر ہے۔
ڈاکٹر واجد علی خان نے خیر مقدمی کلمات کی وساطت سے والدین اور طلبہ کو مبارک باد پیش کی جن کے رتجگوں نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا وگرنہ 90 فی صد سے زیادہ نمبروں کا حصول بالکل بھی آسان کام نہیں، تاہم یہ صرف سنگ میل ہے، نا کہ منزل۔۔۔۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔ جہاں ہر ہر پل جذب صادق کی ضرورت رہے گی۔ ڈاکٹر واجد کے مطابق ”دکھی انسانیت کی خدمت” وہ جملہ ہے جو بے تحاشا تکرار کے باعث اپنی اہمیت کھو بیٹھا مگر اس جملے کی روح تو یہ ہے کہ دو لفظوں میں ایک ڈاکٹر کی پوری زندگی کی عکاسی ہو جاتی ہے۔ اس کی زندگی کا نصب العین تو یہی ایک فقرہ ہے اور اسی بات کا حلف اٹھایا جاتا ہے۔
آزادکشمیر کے تین اضلاع مظفرآباد، میرپور اور پونچھ میں تین میڈیکل کالجوں کا قیام خوش آئند اقدام ہے۔ جن لوگوں کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا آئندہ نسلوں کی ترغیب و تحریک کے لیے ان محسنین کا سراہا جانا ناگزیر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے اس ادارے کی تعمیر و ترقی کا کام التواء کا شکار ہے۔ جس سے یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ سول سوسائٹی نے اپنی کوششوں کو محدود کر دیا ہے یا ہماری حکومتوں کی ترجیحات کا مرکز ہی کچھ اور ہے کہ جس کے باعث ہماری تمنائیں ہنوز تشنہ کام ہیں۔
ڈاکٹر واجد نے تقریب سے خطاب کے دوران مزید یہ کہا کہ گیارہ سال کی طویل مدت میں کالج کی عمارت اور اس سے ملحق اسپتال کا قیام کچھ ایسا ناممکن کام بھی نہیں تھا جو آج تک ممکن نہ بنایا جا سکا۔ انہوں نے کالج سے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے تاکہ طالب علموں کو ان کے فرائض کی مکمل آگہی دی جائے۔ یہاں تعلیم پانے والے ملک میں رہیں یا بیرون ملک جا کر خدمات سرانجام دیں وہ ہر صورت میں ملک و قوم کی ترقی میں حصہ دار بنتے ہیں۔ کچھ لوگ آزاد کشمیر بھر میں تین میڈیکل کالجوں کے قیام کے بعد ان سے تربیت لے کر نکلنے والی ایک بڑی کھیپ کے لیے نوکریوں کی عدم دستیابی کو ہدف تنقید بنانے کے علاوہ متفکر بھی نظر آتے ہیں۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے پانی خود اپنی پنسال میں آجاتا ہے اسی طرح خدمت کے جذبے سے سرشار یہ تربیت یافتہ افراد بھی معاشرے میں اپنی جگہ اور مقام خود بنانے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں راستہ دکھانے کی قطعی ضرورت نہ ہو گی۔
وسیم اعظم؛ اسسٹنٹ ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افئیرز اینڈ ایڈمن؛ نے کالج کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے فیکلٹی کے بھرپور کردار کو خراج تحسین پیش کیا جن کے دم قدم سے ایک ایک موتی کر کے یہ خوب صورت مالا بنتی چلی گئی۔ جو بلامعاوضہ ایک ہی وقت میں کئی کئی عہدوں پہ اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ذمہ داران سے استدعا بھی کی کہ ان ملازمین کو ملازمت کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے تاکہ انہیں کام میں یکسوئی میسر ہو۔
تقریب کے مہمان خصوصی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر سردار آفتاب احمد خان نے PC1 کے منصوبے پر بہت جلد عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔ جس سے ادارے کے تمام حل طلب مسائل کا تدارک ممکن ہو سکے گا۔
تقریب کے اختتامی حصے میں کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شبیر چوہدری نے ڈاکٹر کے سفید کوٹ کو الوہیت کی علامت قرار دیا جو۔۔۔۔”موہے رنگ دے اپنے ہی رنگ میں پیا” کی صورت انسان سے فرشتوں جیسی صفات کا تقاضا کرتا ہے۔ افراد معاشرہ اسے جامع الصفات اور قابل تقلید کردار مانتے ہیں۔ اگر وہ اپنی ذات کو فراموش کر کے خدمت خلق کو اپنا شعار بنا لے تو پیسہ ویسے بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑا چلا آئے گا۔ پروگرام کے اخیر میں قوم کے بچھڑ جانے والے عظیم محسنوں کو یاد کیا گیا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کی گئی۔
میڈیکل کالج کی تحریک کا آغاز برسوں پہلے ہوا۔ کچھ زعماء تحریک کا موثر کردار ہوئے اور پھر دستبرد زمانہ کا شکار ہوئے، تب نئے آنے والے قافلہ سالار ہوئے۔۔۔۔ ان سبھوں کا عمل ناقابل فراموش ہے کہ ہمیں اپنے رفتگاں کو صرف یاد نہیں رکھنا۔۔۔۔ اپنی نسلوں کو ان سے متعارف بھی کرانا ہے۔ اسی میں قومی زندگی کے پنپنے کا راز مضمر ہے۔
میڈیکل کالج کا بننا اور اپنی حیثیت کو منوا لینا کار دشوار سہی سو وہ بھی ہوا، PC1 کی فوری منظوری ہو یا ملازمت کا تحفظ، چک دھمنی کے زیر تعمیر اسپتال کی جلد از جلد تکمیل ہو یا راولاکوٹ میں عملے کے تربیتی مراکز کے پہلو بہ پہلو 25 بستروں پر مشتمل کارڈیک اسپتال کا قیام۔۔۔۔ کالج اور عوام علاقہ کے وہ پرزور مطالبات ہیں جنہیں وعدہ فردا پہ ٹالا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا احساس کہ کالج سے متعلق اساتذہ اور ڈاکٹرز انتہائی نامساعد حالات میں دلجمعی سے اپنے فرائض نبھا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی نیز ان کی مشکلات کا ادراک ان میں نئی روح پھونک دینے کے مترادف ہے تو دوسری سمت اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ ایسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ریاست کا فرض ہے۔۔۔۔ مگر یاد رہے انتشار و خلفشار اندرونی ہو یا بیرونی اداروں اور قوموں کے لیے ضرر رساں ہی ہوتا ہے۔ اتفاق قوت کا سرچشمہ ہے لہٰذا۔۔۔۔

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں