کشمیر برائے فروخت۔۔۔ بشیر سدوزئی

5/ اگست 2019 کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے خبر جاری ہونے کے تمام ذرائع بند کر دئے حتی کہ انسانی حقوق کے مستند کارکن خرم پرویز، نام ور فوٹو گرافر جرنلسٹ مسرت زہرہ سمیت صحافیوں کیمرہ مینوں اور قلم و زبان استعمال کرنے والے افراد کو شہید کر دیا گیا یا ٹارچر سیل میں پہنچا دیا گیا۔ سری نگر کے لال چوک سے بارہ مولا کے پہاڑوں تک وری ناگ سے چکوٹی اور شوپیاں سے بانیال کی بلندیوں تک،بازاروں، میدانوں، گھاٹیوں اور کھلیانوں میں قبرستان سی خاموشی اور موت جیسا سناٹا ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ جموں و کشمیر کے عوام اب کیا سوچ رہے ہیں بس نوجوانوں کے قتل کی خبر آتی ہے تسلسل سے کبھی دو کبھی چار افراد کو شہید کیا جاتا ہے۔ اسی سبب بلا ضرورت کوئی گھر سے باہر بھی نکلتا کہ بے قصور مارا جاوں گا، سڑکیں اور گلیاں ویراں ہیں۔ لگ بھگ ایک کروڑ افراد مارے خوف کے گھروں میں دبک کر بیٹھے ہیں۔ حتی کہ ہوا کے لیے کھڑکیوں کے کِواڑ بھی نہیں کھولتے۔ اس ظلم و ستم پر حیران و پریشان ہیں کہ اکناف عالم ان کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کے قیدی تو مانتا ہے مگر ان کا مقدمہ لڑنے کوئی سامنے نہیں آتا۔ بھارت کا موقف ہے کہ 5 اگست کے اقدام سے جموں و کشمیر کے عوام مطمئن ہیں اور وادی میں پہلے کی جیسی افراتفری اور سیاسی بے چینی نہیں رہی ،کشمیری بھارت یونین میں شامل ہو کر خوش ہیں۔ کشمیریوں کی یہ حالت ہے کہ ہر دل زخمی ہے ، لیکن وہ زخمی دل دیکھائیں کس کو۔ کوئی زخم بانٹنے والا بھی تو ہو۔۔۔ گزشتہ 75سال سے مختلف اوقات میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر مذمتی بیان جاری ہوتا رہتا ہے، اس میں یہ جملے بھی ہوتے ہی کہ ہم کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں ۔ جو بھی لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں لگتا ہے کشمیریوں کے بڑے ہمدرد اور غم خوار وہی ہیں جب حکومت میں آتے ہی کان بند اور منہ سل جاتے ہیں ۔۔2019 کے بھارتی اقدام پر پاکستانی اپوزیشن نے شور مچا رکھا تھا کہ عمران خان نے کشمیر فروخت کر دیا۔۔ آج بھارت 40 لاکھ غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیر کی شہریت دے چکا ، جن میں سے 25 لاکھ کو انتخابی ووٹر لسٹ میں شامل کر رہا ہے جو آئندہ انتخابات میں ووٹ دیں گے۔ وادی کشمیر میں ہونے والے سابق انتخابی ریکارڈ کے مطابق کل تقریبا 30 لاکھ ووٹر حق رائے دہی استعمال کرتے رہے ہیں ۔ ان میں 25 لاکھ کا یک مشت اضافہ ایک بڑی تبدیلی لائے گا، جس سے وادی کی سیاست ہی نہیں زبان و ادب اورفن و ثقافت پر بھی اثر پڑے گا ۔ مسلم لیک ن کی قیادت میں قائم پاکستان میں تمام پارٹیوں کی قومی حکومت نے دلیرانہ اقدام کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ” پاکستان نے مقبوضہ کشمیرمیں غیر ریاستی افراد کی ووٹر لسٹوں میں شمولیت کی کوششوں کو مسترد کردیا” ان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ” جو دوا کے نام پر زیر دے، وہ چارہ گر تو یہی ہیں” صرف یہ بیان دے کر خاموش ہو جانے سے کیا بھارت خوف زدہ ہو کر کشمیر چھوڑ دے گا یا آپ کے اس بیان کو پڑھ کر مذید دو چار نوجوان جذباتی ہو کر نعرے لگائیں گے کہ پاکستان کی حکومت ہمارے ساتھ کھڑی ہے، اس جرم میں وہ مارے جائیں گے۔ 75 سال گزر گئے ایسے ہی بیانات کے آسرے پر، سلمان اختر سے معذرت کے ساتھ تھوڑی سی تبدیلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوابوں کے آسرے پہ بہت دن جیے ہیں ہم ۔۔۔۔۔ شاید یہی سبب ہے کہ تنہا رہے گئے ہیں ہم ۔۔۔۔کشمیری اب خاموش انتظار کر رہے ہیں، وہ کیا کریں تو یقین آئے کہ وفادار ہیں، ان کے مسائل دنیا تک کون پہنچائے گا ان کے سر پر اب سید علی گیلانی نہیں رہے، اشرف صحرائی بھی نہیں ہے۔ مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، قاسم فکتو، آسیہ اندرابی اور میر واعظ عمر فاروق بھی نہیں سب جیلوں میں ہیں۔ انہوں نے جدوجہد میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، ابھی تک موصول ہونے والی دستیاب معلومات کے مطابق 5 اگست 2019 سے 2022 تک 698 افراد ماورائے عدالت قتل کئے گئے۔ 515 افراد آمنے سامنے مقابلے میں شہید یوئے۔گویا شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 1213 کے لگ بھگ ہے۔33 خواتین بیوہ ہو گئیں 82 بچے یتیم ۔2172 افراد زخمی ہوئے۔ اس دوران 17139 افراد کو بلاوجہ گرفتار کیا گیا۔ 1989تا 2022ء تک مجموعی طور پر 96946 افراد کو شہید کیا گیا۔ 25940 افراد زخمی ہوئے۔خواتین کو گھروں میں گھس کر یا فوجی چھاونیوں میں لے جا کر ریپ کرنے کی تعداد 11246 ہے۔ سب سے خوف ناک واقعات کنن پوش پورا اور سرن کوٹ پونچھ کے ہیں جہاں بھارتی فوج نے بطور جنگی ہتھیار اجتماعی ریپ کیا۔ مردوں کو قتل یا باندھ کر رات بھر اجتماعی ریپ کرتے رہے۔ 107855 بچے یتیم ہوئے۔11045 مکانات، 15000 دوکانیں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کیا گیا۔ مجموعی طور پر اب تک کشمیریوں کا 40 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا، اب کشمیر میں سرامکس سمیت کشمیری صنعت بند ہے جو شاہ ہمدان کے دور میں شروع ہوئی تھی۔2011 سے اب تک ہندوؤں نے کشمیری تاجروں کی مصنوعات کا بائی کاٹ کیا ہوا ہے۔ کشمیر میں فروٹ کے درخت بھارتی فوج نے سکورٹی خطرات کے نام پر کاٹ دئے۔ بھچا کچھا فروٹ وادی میں ہی جل سڑ رہا ہوتا ہے۔ 8652 اجتماعی گم نام قبریں دریافت ہوئیں۔2014 میں پیلٹ گنز کا استعمال شروع ہوا جس سے 120 افراد شہید اور 15500 شدید زخمی ہوئے۔ جن میں بچے اور خواتیں بھی شامل ہیں اکثر کی کی آنکھیں ضائع اور چہرے داغ دار ہو گئے۔۔ 1947 سے اب تک مسئلہ کشمیر کے تنازر میں سات لاکھ سے زائد افراد شہید ہو گئے۔ 14 ہزار سے زائد سیاسی کارکن اور قائدین کو ٹارچر سیلوں میں رکھا ہوا ہے جن میں آسیہ اندرابی سمیت کئی دیگر نامور خواتین بھی شامل ہیں ۔ آج بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مقامی پولیس پیراملٹری فورسز اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے علاوہ 10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں بھی استعمال کرنے لگے ہیں جس سے اجتماعی طور پر سول آبادی مختلف بیماریوں میں مبتلاع اور اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔آزاد کشمیر حکومت اور اسمبلی کے کردار کے بارے میں سپریم کورٹ مظفرآباد کے باہر 19 اگست کو ایک وکیل صاحب نے درست انداز میں تشریح کی اس سے زیادہ بہتر انداز میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو اسبملی ممبران اپنے بچوں کے مستقبل کے خطرات کے پیش نظر بلدیاتی اداروں اور اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات نہ ہونے دیں کہ قوم سے کوئی نوجوان نمایاں ہو کر سیاست میں آ گیا تو ان کے نالائق بچوں کو سیاست سے باہر کر دے گا ان سے خیر و بھلائی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کو خواہ وہ مقبوضہ کشمیر کی مین اسٹریم پارٹیاں ہیں آزادی پسند یا آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں پاکستانی پارٹیوں کی فرنچائز ایک نقطہ پر جمع ہونا ہو گا اور وہ ہے رائے شماری اس سے قبل آزاد کشمیر گلگت بلتستان اور حریت کانفرنس پر مبنی کشمیریوں کی نمائندہ حکومت تسلیم کر کے بین الاقوامی سطح پر بھارت کے خلاف جہارانہ سفارتی مہم کی ضرورت ہے اس کے لیے سفارت کاری کے اختیار کشمیریوں کو دئے جائیں دنیا بھر میں موجود کشمیری ڈائس پورا میں سے کچھ افراد کو چنا جائے جن کو رضاکارانہ طور پر سفارت کاری کی ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ بھارت کو سفارتی محاذ پر شکست دی جا سکے۔ بصورت دیگر بھارت نے کشمیر کو ہضم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بعد میں کشمیر فروخت کر دیا حکومت نے پاکستان کی اپوزیشن لاکھ واویلا کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔ ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں