”باباآپ کی بیگم مجھے تنگ کرتی ہے“۔۔۔۔عابد صدیق

چند سال پہلے سردیوں کی ایک ”سرد“ دوپہر تھی۔کمشنر آفس ڈسٹرکٹ کمپلکس سے منسلکہ پرانی کمشنر عمارت میں تھا۔عبدالحمید مغل کمشنر پونچھ ڈویژن تھے اور راولاکوٹ میں ان کی پہلی تعیناتی تھی۔میں ان سے ملنے ان کے آفس گیا تو وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ہنس بھی رہے تھے اور اسے پیار سے سمجھا بھی رہے تھے۔بات ختم کی تو میں نے ازراہ مذاق پوچھا کہ کون تھا جس سے آپ اس قدر عاجزی سے بات کر رہے تھے تو کہنے لگے کہ میرا بیٹا ہے جو ابھی کم سن ہے۔ اسے کسی بات پر اپنی والدہ نے ڈانٹا ہے تو وہ مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ ”آپ کی بیگم مجھے تنگ کر رہی ہے آپ اسے سمجھائیں“ تو میں دنوں کو سمجھا رہا تھا۔پھر وہ بیٹے کی بہت ساری باتیں شیئر کرنے لگے کہ وہ کس قدر شرارتی ہے۔
ہنس مکھ چہرہ،درد دل اور دور اندیشی عبدالحمید مغل کی پہچان تھی۔راولاکوٹ میں دو دفعہ بطور کمشنر ان کی تعیناتی ہوئی۔اس سے پہلے وہ لمبے عرصے تک باغ میں ڈپٹی کمشنر رہے تھے۔راولاکوٹ میں تعیناتی سے قبل مجھ سمیت یہاں کے اکثر لوگ ان کے نام سے تو واقف تھے لیکن ان کی شخصیت سے واقفیت نہ تھی۔جب ان کی پہلی تعیناتی بطور کمشنر پونچھ ڈویژن ہوئی تو ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔وہ اپنے کام میں ماہر تو تھے ہی لیکن انتہائی انسان دوست اور معاملہ فہم انسان تھے۔عام خیال رہتا ہے کہ پونچھ ایک مشکل اسٹیشن ہے اور یہاں تعینات ہونے والے بیوروکریٹ عام طور پر زیادہ خوش نہیں ہوتے لیکن انہوں نے اسے بہت انجوئے کیا۔بحرانی کیفیت میں بھی مسکراہٹ ہمیشہ بکھیرے رکھی اور بڑے سے بڑا مسلہ بھی خوبصورتی اور پیشہ ورانہ طریقے سے حل کیا۔پونچھ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ سروس کے لیے یہ ایک بہترین مقام ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دو دفعہ یہاں کمشنر پونچھ تعینات ہوئے اور بہترین طریقے سے فرائض سرانجام دئیے۔راولاکوٹ میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک دفعہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی شاید آفریدی راولاکوٹ آئے تو ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں انہوں نے راولاکوٹ کی نمائندگی کی اور دس منٹ میں اپنی تقریر میں اس خطے کی تاریخی حیثیت اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے دی گئی قربانیوں کو اس قدر خوبصورتی سے بیان کیا کہ ہر ایک سننے والے نے ان کی تعریف کی۔کچھ لوگ ان کو اس تقریر کے بعد ان کو مبارکباد دینے ان کے دفتر گئے تو وہ خوشی سے آبدیدہ ہو گے۔کہنے لگے کہ میں یہاں تعینات ہوں تو مجھے نمائندگی بھی یہاں کے لوگوں کی اور اس خطے کی بلا تخصیص کرنی چائیے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس خطے سے متعلق بہت مطالعہ کیا اور مجھے یہاں کے لوگوں کی صاف گوئی اور بے باک انداز بہت پسند ہے جو کہ کسی دوسرے شہر میں کم پایا جاتا ہے۔
ڈی ایم جی گروپ میں آنے سے پہلے وہ محکمہ جنگلات میں ملازم رہے لیکن ان کا وہاں دل نہ لگا حالانکہ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات میں بھی وہ اپنے کام کی وجہ سے بے پناہ شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے دوبارہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے ڈی ایم جی گروپ کا انتخاب کیا۔متعدد آسامیوں پر تعینات رہے اور آج کل اسپیشل سیکرٹری داخلہ تھے۔مظفراباد جب بھی جانا ہوتا ان کے پاس ایک کپ”قہوہ“ ضرور پیتے تھے۔ان سے مل کر ایک اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔مظفراباد میں کسی بھی محکمے میں کوئی بھی کام ہو وہ اپنے ذمے لے لیتے تھے۔زیادہ تر کام کاج تو فون کر کے ہی کروا دیتے تھے لیکن جہاں ضرورت پڑتی وہ خود چلے جاتے۔ان کے ذمے کوئی کام لگا دیں تو سمجھ لیں کہ وہ ہو گیا ہے۔اپنے ملنے والوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے اور بیوروکریسی میں بھی وہ یکساں مقبول تھے۔”گروپ بندی“سے دور رہتے تھے۔اکثر ان کے ساتھی فارغ وقت میں ان کے آفس چلے جاتے اور ان کی میزبانی سے خوب لطف اندوز ہوتے۔
یوں تو وہ دور آفتادہ گاوں لوات نیلم کے رہنے والے تھے لیکن ایک عرصے سے مظفراباد میں ہی رہائش پذیر تھے۔اس میں شک نہیں کہ موت برحق ہے اور اس کا مقام اور وقت بھی متین ہے لیکن یہ راز اب تک راز ہی ہے اور اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ورنہ عبدالحمید مغل کی موت نیلم اور مظفراباد کی بجائے رسالپور میں نہ ہوتی۔
چند دن قبل وہ اپنے بیٹے جس نے پاکستان ائیرفورس کا انتخاب کیا تھا کی کنووکیشن کی تقریب میں شامل ہونیکے لیے اہلیہ کے ہمراہ رسالپور گے تھے۔وہ پہلے اسلام آباد رات قیام کے بعد رسالپور جانا چاہتے تھے لیکن پھر ارادہ بدل لیا اور اگلے روز ہی رسالپورچلے گے۔ یقینا وہ دن جس کا سورج انہوں نے طلوع ہوتے نہیں دیکھا ان کی زندگی کے چند خوشگوار دنوں میں سے ایک ہوتاکہ اس دن ان کے بیٹے کی عملی زندگی کا آغاز تھا اور اس بات کی ان کو کس قدر خوشی ہوئی ہو گی۔زندگی کی آخری رات وہ گیسٹ ہاوس میں ٹھہرے اور رات کے پچھلے پہر انہیں دل کا دورہ پڑا،انہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن یہ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا سے چلے گئے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو اس دنیا سے چلے جانا ہے لیکن بعض لوگ وقت سے پہلے جدا ہو جاتے ہیں جن میں ایک عبدالحمید مغل بھی ہیں۔جہاں وہ ایک اچھے انسان بھی تھے وہاں ایک اچھے پیشہ ور آفیسر بھی تھے۔ان کی جدائی سے جہاں ان کے خاندان،ان کے ساتھیوں اور رفقاء کرام کو دکھ پہنچا وہاں ہر اس شخص کو بھی صدمہ پہنچا جو ان سے زندگی میں ایک بار مل چکا تھا۔اللہ تعالیٰ ان کے خاندان اور ان کے رفقاء کرام کو صبر وجمیل عطا کرے اور انہیں جبت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں