باب کشمیر کی ،شہزادی بیٹی چیختی رہی۔۔۔ افضل ضیائی

اس کے ماما بابا کو حج پہ گئے ھوئے کئ روز ھو چکے تھے مگر بے چینیوں اور والدین کے براگ نے اسے چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا ۔اس کی ھسپتال کی کولیگز اب بتاتی ھیں کہ وارڈز، کوری دورز،ڈیوٹی روم میں، غرضیکہ ھر جگہ اور ھر لمحہ وہ زکر کرتی رھی کہ مجھے ماما بابا بہت یاد آرھے ھیں ۔
دل کی بےکلی اسے کہیں چین نہ لینے دیتی تھی ویسے تو والدین سے الگ رھنے کا تجربہ اسے میڈیکل کالج میں دوران تعلیم ھو ھی چکا تھا مگر اب کی بار بڑوں سے جدائی کے کرب نے اس کو بے سکون کر رکھا تھا
وہ ماما کو فون کر کر کے اصرار کرتی رھی ۔۔۔ماما آپ جلدی سے آجائیں نا ۔۔اب سمجھ آتی ھے کہ اسے جلدی کیوں تھی ۔اس نے اگلے سفر پہ روانہ ھونا تھا ایسا سفر جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ھوئی۔۔۔ ھو جاتی تو کتنے رشتے تھے جو اس سے پیار کرتے تھے ۔۔ماما بابا کو خبر ھو جاتی تو وہ دوڑے آتے، اسے روک لیتے اور اسے سمجھاتے کہ ۔۔۔آمنہ! ۔۔۔دیکھو ۔۔۔ بیٹا ھم تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکیں گے ۔وہ بابا جو اسے وینٹلیٹر پہ بے حس و حرکت پڑے دیکھ کر دعا مانگتے رھے کہ یا اللہ ۔۔۔میری آمنہ کو میری زندگی دے دے ۔وہ بابا آمنہ کو کب جانے دیتے ۔۔۔
آمنہ کی بڑی بہن ۔۔ڈاکٹر انعم افتخار بتاتی ھیں کہ گھر میں جب کبھی میں آمنہ کو بلاتی ۔۔۔۔آمنہ ادھر آوء۔۔۔آمنہ ادھر آوء۔۔۔تو آمنہ جواب میں جھنجھلاتے ھو ئے کہتی ۔۔انعم تمہارا جی چاھتا ھے کہ میں تمہارے پیچھے پیچھے ھی پھرتی رھوں ۔۔۔ او ھو ۔۔۔آمنہ آج آپ کی اس جھنجھلاھٹ کا راز کھلا ۔۔کہ تم ۔۔۔اپنی بڑی بہن ۔۔انعم کو اپنے بغیر جینا سکھا رھی تھی ۔آج جب تمہارا جنازہ اٹھایا جانے لگا تو انعم نے تمہیں روکنے کی بہت کوشش کی اس کی دردناک چیخیں ھمارے دل و جگر پاش پاش کر رھیں تھیں ۔تم اپنے پیاروں کے کندھوں پہ سوار جارھی تھی اور انعم تمہیں پکار پکار کے کہہ رھی تھی ۔۔۔آمنہ رک جاوء ۔۔۔آمنہ واپس آجاوء۔آمنہ مجھے اکیلا مت چھوڑ کے جاوء۔۔۔مگر تم نے سنی ان سنی کر دی ۔تمہیں اندازہ تھا کہ بہنوں کی یہ جوڑی ایک دن ٹوٹ جائے گی ۔اس چھوٹے سے خوبصورت گھروندے میں چہکتی چڑیاں ایک دن ھمیشہ کے لیئے خاموش ھو جائیں گیں ۔
آمنہ بیٹا ۔۔۔۔تم نے مامابابا کو جو سرپرائز دینے کا کہا تھا ۔۔ تو کیا وہ سرپرائز یہی تھا ؟؟ ۔۔۔کہ وہ حج پہ جائیں گے اور آپ ان کی واپسی کا انتظار کیئے بغیر آنکھیں موندیں ،اپنے ماما بابا سے بات کیئے بغیر ھی اس دیس چلی جاوء گی ۔جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا ۔
آمنہ پیاری بچی اس طرح تو نہیں کرنا تھا۔تمہیں کچھ یاد ھے تمہارے ماما بابا نے حج پہ جانے سے پہلے اس خیال سے کہ لمبے سفر پہ جا رھے ھیں۔کیا پتہ کہاں یہ سفر اچانک ختم ھو جائے گھر کے کچھ انتہائی ضروری کاغزات اور چابیاں تمہارے حوالے کی تھیں مگر تمہارا وقت آخر آ پہنچا تو تم نے بابا کے ھاتھ سے وصول کی چابیاں اور کاغزات ۔۔۔سب کچھ ادھر ھی چھوڑے یہ جا وہ جا ۔۔۔آمنہ بیٹا اتنی جلدی نہ کرنی تھی ۔ اب تمہیں کیا خبر کہ تمہارے ماما بابا کس حال میں ھیں ،

آمنہ نے گھر میں ھرطرح کے ڈیزائن کے نئے جائے نماز تہہ بہ تہہ ترتیب دے رکھے تھے کہ ماما بابا حج سے واپس آئیں گے تو لوگوں کو گفٹ میں یہ جائے نماز دیں گے ۔
ماما بابا کے لئیے اس نے نئے کپڑوں کی شاپنگ بھی کر رکھی تھی ۔
ماما بابا اس بات پہ خوشی کا اظہار کرتے تھے کہ بڑی بیٹی ڈاکٹر انعم اگرچہ دور بیاھی گئ ھے تو چلو آمنہ کا گھر تو ھمارے قریب ھی ھے نا ۔۔یہ ھمارا خیال رکھا کرے گی ۔جب بلائیں گے آ جایا کرے گی ۔ھمیں اولاد کا اکلاپہ نہیں ھوگا ۔۔۔ آمنہ یہ آپ نے کیا کیا ۔۔۔بیٹا آپ نے تو ماما بابا کی ایک کال پہ دومنٹ میں ان کے پاس پہنچنا تھا ۔۔۔اور آپ وھاں چلے گئے ھو کہ جہاں ماما بابا کی نہ آواز پہنچ سکتی ھے نہ انکی فریاد ۔۔۔۔بیٹی اتنی دور اور ھمیشہ کی جدائی ۔۔۔۔۔بیٹا آپ نے بڑا سخت فیصلہ کیا ۔
درد کی وجہ سے اپنڈکس کا آپریشن تجویز ھوا سعودی عرب ماما بابا کو فون کر کے بتایا کہ بس چھوٹا سا آپریشن ھے ھسپتال کے آپریشن تھیٹر کی طرف روانگی سے پہلے ماما بابا سے بات کی اور کہا ۔۔۔ماما ھم آپریشن کے لیئے جا رھے ھیں ۔۔ماما مجھے بہت ڈر لگ رھا ھے ماما آپ دعا کرنا ۔ناھنجار سرجن کی کوتاھی سے کچھ پیچیدگی کے باعث دوسری بار پھر آپریشن کے لیئے اسے لے جانے لگے تو ۔۔۔۔آمنہ گھبرائی ھوئی تھی وہ تھیٹر کی طرف جاتے ھوئے چیخ کر کہتی رھی کہ ۔۔۔۔۔میں مرنا نہیں چاھتی ۔۔میں جینا چاھتی ھوں ۔۔۔انعم نے حوصلہ دیتے ھوئے کہا۔۔۔۔آمنہ گھبراو نہیں سب ٹھیک ھو گا ۔۔۔آمنہ کہنے لگی ۔۔۔کچھ ٹھیک نہیں ھو گا ۔آمنہ نے بار بار کہا کہ میں ابھی مرنا نہیں چاھتی مگر افسوس ۔۔۔صد افسوس ۔۔راولپنڈی کے معروف ھسپتال کے غفلت شعار ۔۔۔۔نام نہاد سینئر سرجن کی پیشہ وارانہ نا اھلی نے باب کشمیر ۔۔۔۔بھمبر آذادکشمیر کی ھونہارڈاکٹر، شہزادی بیٹی کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ۔۔۔ھم پوچھتے ھیں کہ ھے کوئی اس ملک میں ان ظالم قصابوں سے پوچھنے والا کہ ۔۔۔وہ کیوں انسانی زندگیوں سے کھیل رھے ھیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں