بلدیاتی انتخابات اور منتخب نمائندگان کی ذمہ داریاں۔۔۔۔عابدصدیق

آزاد کشمیر میں قائم پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنے انتخابی منشور میں لکھا تھا کہ ان کی حکومت اقتدار میں آکر آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کروائے گی۔اس منشور کی تیاری میں جن لوگوں نے حصہ ڈالا تھا ان میں پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل راجہ منصور اور سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات ارشاد محمود شامل تھے۔ارشاد محمود پی ٹی آئی میں شمولیت سے پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کے حق میں ایک مہم چلا رہے تھے۔وہ ایک غیر سیاسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب رہے تھے اور ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا گیا تھا جس پر اقتدار کی دوڑ میں شامل سب ہی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے دستخط کیے تھے۔قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے تنظیمی عہدیداران کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہی مسائل کے حل کا واحد ذریعہ ہے۔یہ خوش قسمتی تھی کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی بنے جو خود بلدیاتی نظام کا حصہ رہے تھے اور وہ اس نظام کے ثمرات سے خوب واقف بھی تھے۔انہوں نے پارٹی منشور کی ترجیحات مقرر کیں اور یہ عہد کیا کہ بلدیاتی انتخابات کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کر کے انتخابات کروائیں گے یہی وجہ ہے ان کے اقتدار میں آتے ہی متعلقہ محکمہ جات نے ابتدائی کام کا آغاز کر دیا تھا۔ان کو اقتدار سے اپنی ہی جماعت کی طرف سے ہٹائے جانے کے بعد نئے وزیر اعظم تنویر الیاس نے بھی اسی طرح کے عزم کا اظہار کیا چنانچہ بتیس سال کے بعدآزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں موجودہ وزیر اعظم کا بھی بڑا کردار ہے کیونکہ آزادکشمیر کی کوئی بھی سیاسی جماعت بشمول نوے فیصد سے زائد ممبران اسمبلی جن میں پی ٹی آئی کے ممبران بھی شامل تھے اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوں اور اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو یا پھر متبادل نوجوان سیاسی قیادت سامنے آئے۔
موجودہ بلدیاتی انتخابات جہاں بتیس سال کے بعد ہوئے وہاں ایک اور منفرد کام یہ ہوا کہ کسان،مزدور،نوجوان اور خواتین کے لیے بھی خصوصی نشستیں مختص کی گئیں جس کے بعد ہر شعبے سے نمائندگی کا تاثر بھی ابھرا۔سیاسی جماعتوں خصوصاًپاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر نے خواتین کو براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ بھی جاری کیے اور راولاکوٹ کارپوریشن کی ایک نشست پر پی پی پی کی ٹکٹ یافتہ خاتون کامیاب بھی ہوئی۔انتخابی نتائج کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تومجموعی طور پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر پہلے نمبر پر رہی جس نے دس میں سے سات اضلاع میں اپنے ضلعی چیئرمین منتخب کیے،دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر نے جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کامیاب حاصل کی۔ریاستی جماعتوں میں جموں وکشمیر پیپلزپارٹی (جے کے پی پی) پہلے نمبر پر رہی جوقانون سازاسمبلی میں ایک ہی نشست رکھنے کے باوجود میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ میں اپنا میئربنانے میں کامیاب ہو گئی۔دیگر ریاستی جماعتیں آل جموں و کشمیرمسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر ان انتخابات میں کئی بھی نظر نہیں آئیں اور ان کی اپنی اپنی جماعتوں کے امیدوار”جماعت“کی شناخت چھپا کر آزاد حیثیت سے بعض جہگوں پر کامیاب ہوئے اور بعد میں دوسری جماعتوں کے اتحادی بنے۔اس طرح ریاستی جماعتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو جموں وکشمیر پیپلزپارٹی (جے کے پی پی) واحد جماعت ہے جس نے نہ صرف اپنی شناخت،اہمیت اور وجود برقرار رکھا بلکہ تنظیمی کارکنوں کو کئی سالوں تک جہدوجہد کے لیے ایکسیجن بھی مہیا کی۔جے کے پی پی کی یہ کامیابی اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں کہ وہ ان خدشات اور الزامات کو زاحل کرنے کی کوشش کرے جو ماضی میں ان پر لگائے جاتے رہے۔شہر کے مسائل حل کرنے اور شہریوں کو سہولتیں پہنچانے کے لیے ان سے زیادہ وسائل شاید دوسری جماعتوں کے پاس نہیں کیونکہ شہری حلقے کی نشست بھی ان کے پاس ہے اور تا جران کی اکثریتی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر وہ اعتماد کی فضاء ہے جو تین بڑی سیاسی جماعتوں سے پنچہ آزامائی کے بعد اسے حاصل ہوا اعتماد کی اس فضاء سے اسے بھرپور فائدہ اٹھانا ہو گا اور ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔
راولاکوٹ شہر کو موجودہ وقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں شہر سے دوسرے اضلاع اور بیرو ن آزادکشمیر جانے والے پبلک سروس گاڑیوں کے اڈوں کی بس ٹرمینل متیالمیرہ پر منتقلی،لوکل روٹس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کے لیے شہر میں داخل ہونے سے پہلے اڈوں کا معقول بندووست،پہلے سے کی گئی تجاوزات کا خاتمہ اور نئی تعمیرات کے لیے کارپوریشن کے نقشہ جات کے شعبے کو فعال کرنا،شہر کی مین شاہرات کے قرب و جوار میں پارکنگ کا معقول بندووست اور شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا شامل ہیں۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو دور کیے بغیرکوئی بھی شہری حکومت شہریوں کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یوں تو میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ کی حدود کافی بڑی ہے لیکن ایک ایسے وقت جب ترقیاتی ادارہ (پی ڈی اے) مکمل طور پر غیر فعال ہو اور اس کے پاس کام کرنے کی اہلیت و صلاحیت بھی نہ ہو شہری حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرنی ہوں گئی،کارپوریشن میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے نو منتخب ممبران کو بھی چائیے کہ انتخابی رنجشیں درگذر کر کے نومنتخب شہری حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے تاکہ یہ شہر جو آزادکشمیر کے دیگر اضلاع کا مرکز اور پونچھ کا ڈویژنل ہیڈکواٹر کہلاتا ہے ایک ماڈل شہر بن سکے اور اور اس شہر میں بسنے والے شہریوں کو دیگر شہروں جیسی سہولیات میسر آسکیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں