دیپ بکھری یادوں کے… سید وجاہت گردیزی ،باغ

“پروفیسر نسیم سلیمان پونچھ کی پروردہ ہیں اور کشمیری تہذیب وثقافت کے نقوش محفوظ کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں ۔خطہ پونچھ کشمیر کا سرسبزوشاداب علاقہ اور علم وہنر کا محور ہونے کی وجہ سے معروف ہے لیکن پونچھ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے باشندے دلیر،جانباز، جفاکش، ڈٹ جانے والے،رسک لینے والے ،جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے والے،شعلہ بیاں مقرر اور عالمگیر ثقافتی یلغار میں اپنی ثفافت کو سینے سے لگائے ہر دم پیش پیش ہیں۔ پروفیسر نسیم سلیمان بھی اسی قافلہ حریت کی جانباز قلمکار ہیں۔نسیم سلیمان کی یہ دوسری تصنیف ہے ۔پہلی تصنیف ” یادوں کی الماری” کرونا وبا کی بندشوں سے منصہ شہود پر آئی اور علمی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی۔ “دیپ بکھری یادوں کے ” نسیم سلیمان کی یادداشتوں پر مشتمل ایسی تصنیف جو گردوپیش میں پھیلی زندگی کے ہر رخ کا احاطہ کرتی ہے۔درد کرب اور بھوک سے ستائے ہوئے لوگ، کچلے ہوئے طبقات ، محبت کے لافانی جذبے سے سرشار لوگ، ہمدردی قربانی،ملنساری اور بھائی چارے سے بھرپور لوگ جن کے درد مندانہ رشتوں کی معنویت تلاش کی گئی ہے۔ایسی یادیں انسانی وقار، عزت،غیرت اورشناخت کا احساس دلاتی ہیں۔ نسیم سلیمان نے آزادحیثیت سے معاشرت کا مطالعہ کیا ،سماج کو پرکھا ہے،فطرت کو لفظوں میں سمیٹا ہے۔ان کے موضوعات میں وہ یادیں ہیں جو ان کے تجربے اور مشاہدے میں ترجیحی بنیاد پر برتی گئی ہیں۔ فطرت سے ان کی گہری وابستگی کا اظہار ان کے خلوص تحریر سے عیاں ہوتا ہے۔
کورونا وبا کے دوران میں لاک ڈاون نے جب خوف کی چادر پھیلا دی اور زندگی مقید ہوگئی تو نسیم سلیمان نے ماضی کی حسیں یادوں میں مناظر کے رنگ بھرنے شروع کیے، اور رنگ رنگ کے احساسات اور داخلی تحریکات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔ دردمندی کا احساس لیے یادوں کے شذرے دھیمی دھیمی آنچ سے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔مجھے یہ کتاب پڑھتے محسوس ہوا کہ میں اپنے ماضی سے پھول چن رہا ہوں اورکیف آور جذبات کی یادیں قلب وروح کو طمانیت بخش رہی ہیں۔یادوں کے یہ دیپ ایک روشنی سی خلق کرتے ہیں جن کے نور کا ہالہ پہاڑی ثقافت، پہاڑی زبان، پہاڑی لب ولہجے اور پہاڑی کلچر کے رنگوں کو وسعت عطا کرتا ہے ۔یہ رنگ پہاڑی پونچھی سماج کے چالیس پچاس سالہ نقش ابھارتے ،منفرد شناخت بناتے، بھرپور منور کائنات تخلیق کرتے ہیں ۔
نسیم سلیمان کے اسلوب میں احساس کی شدت اور درد وکرب ہے لیکن حالات وواقعات کو شگفتہ اور مؤثر پیرائے میں بیان کیا ہے ۔یادیں مختصر تصنع سے پاک اور سادہ انداز بیاں سے لبریز ہیں۔ اپنے گردوپیش، معمولات، روزمرہ زندگی،ملازمت، کالج کے شب وروز، پونچھ کے فطری مناظر اور موت وحیات کے غیرمعمولی واقعات ، سیروسفر غرض وہ قلب وجگر کو متاثر کرنے والی ہر یاد کو موضوع بناتی ہیں اور رواں ،شگفتہ اور دلکش انداز بیاں سے قاری پر محویت طاری کردیتی ہیں۔
دیپ بکھری یادوں کے نسیم سلیمان کی یاد کا المیہ ہے۔ بچپن میں”پاں پاں والا ،پانچ روپے اور بات پرچے دینے کی” جیسی یادوں کی سوغات دلچسپی سے لبریز ہیں۔ پاں پاں والا ایک ڈراؤنا کردار ہے جس سے بچپن میں ڈرایا جاتا ہے۔کرونا وبا کے نشانے پر انسانی زندگیوں کا المیہ انھیں لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔کرونا کے دوران چھائی زندگی کی اداسی، بے دلی اور آشفتہ حالی احتیاط اور ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔” وہ تو بہار چمن تھی” ایک ہم جماعت ککو کی یاد ہے جس کی جواں موت، مصنفہ کو ماضی کے دھندلکوں میں لے جاتی ہیں۔” کرکٹ اور ہم ” ریڈیو پر حسن جلیل اور افتخار حسین کی کامنٹری اور خود کرکٹ کھیلنے کی کا دلچسپ اور شگفتہ احوال ہے ۔جنج ڈولی ہماری پونچھی ثقافت کا حسین رواج ہے لیکن باغ اور راولاکوٹ کے درمیان بلال پوٹھا کے قریب جنج ڈولی ایک اسطورہ کے طور پر مصنفہ کی یادداشت پر نقش ہیں ۔بلال پوٹھا اور چترہ ٹوپی کے درمیان درختوں کی ایک قطار کے متعلق روایت ہے کہ بارات نے ایک زیارت پر دعا نہ کی بے ادبی کی وجہ سے بارات اور ڈولی درخت بن گئے۔اس واقعے میں اضافہ کردوں مقامی روایت یہ بھی ہے کہ وہ باراتی پتھر بن گئے چنانچہ وہاں آج بھی پتھروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جسے ” پتھراں نا ڈھیر” کہا جاتا ہے۔یہ اسطورہ تجسس سے بھرپور ہے ۔” اور وہ بھی چلی گئی” ہم جماعت شبنم کی موت کا نوحہ ہے جو شریف جان بن کر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرتے شناخت کرلی جاتی ہے۔” کچھ لو اور کچھ دو” نظم میں نسیم سلیمان دنیا کے گورکھ دھندے سے دور اپنی خواہشوں کے تابع پرامن جہاں کی تعمیر کی خواہشمند ہیں۔
کوئی ایسا شہر بساؤں میں
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملے
” نیلم لہو لہو” بہت مشکل ہے زندگی،زندگی کے دکھ،اور ماں راستہ دیکھتی ہے” دردوکرب میں ڈوبی تاثراتی یادیں ہیں جو زندگی کے المناک واقعات سے شناسا کرتی ہیں۔ “راولاکوٹ” وادی پرل کی خوبصورتی اور دلکشی کو برقرار رکھنے کے لیے تجاویز پر مشتمل شذرہ ہے ۔مصنفہ کی ذات کا المیہ ” کرونا اور ہم ” میں سامنے آتا ہے جب ڈاکٹر حلیم، ڈاکٹر صادق اور دیگر مسیحا لوگوں کو وبا سے بچاتے خود قربان ہوجاتے ہیں ۔مصنفہ غربت،افلاس،معاشی تباہی اور اموات سے واقعات کشید کرتی ہیں اور شگفتہ بیانی سے تحریرکرتی جاتی ہیں۔
” پہاڑوں کا شہزادہ” میں پہاڑی زبان کے شاعر حمید کامران کے بیٹے کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جو برین ہیمبریج کے دوران میں والد کی امید بندھاتا رہا۔ خلوص ،محبت اور پیار کی مہک لیے سب سے یکساں برتاو کرنے والی زبیدہ چاچی بھی نسیم سلیمان کی یادوں میں جگمگا رہی ہیں جن کی جدائی کا نوحہ ” چاچی” کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔کشمیر کی خوبصورتی اور دلکش مناظر اور پرکیف وادی وکوہسار بے پناہ کشش کے حامل ہیں نسیم سلیمان گنگا چوٹی، نکیال، تولی پیر ،ڈنہ پوٹھی میرخانہ میں مخملی گھاس کے میدانوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں ، بلند کوہساروں کے نیچے اڑتے بادلوں کے نظاروں میں پریاں تلاش کرتی ہیں اور کہیں تاریخ کے جھروکوں سےراجہ کی بیٹھک اور رانی کی باؤلی تلاش کرلاتی ہیں۔ نسیم سلیمان کی یادوں میں زیادہ تر ہمراہیوں سے جدائی کا دکھ ، ان کی محبت بھری یادیں، چھوٹے چھوٹے سفر، اور زندگی کی بے ثباتی موضوع بنتے ہیں۔کچھ یادیں مزاح سے بھرپور ہیں ” محبت کا ایک انداز یہ بھی ہے” ایسا ہی ایک شذرہ ہے ایک خوش گفتار
معلمہ شیراز کی بہن پر لکھا گیا ہے ۔مصنفہ کے پرلطف پہاڑی مکالمے تحریر کو پر مزاح بنا کر لوٹ پوٹ کردیتے ہیں۔پہاڑی تہذیب کے دو کردار” قربانا اور صاؤ جان” بے گھر بہن بھائی کی داستان الم ہے، جولائے کا پیشہ اختیار کیے یہ سماجی کردار پچاس برس پہلے کی دیہی سماجی زندگی کا نقشہ منظر پیش کرتے ہیں۔ ” ہمارا گھر” پہاڑی ثقافت کا ایک مرکز جو کسی کی یادوں اور اپنائیت سے بھرپور طمانیت لیے ماضی کے جھروکوں سے جھانک رہا ہے۔بچپن سے جڑا گھر جہاں مٹی کے بنے طاق،کچی دیواریں، مٹی کے ڈیرے، اندرلا اندر،مٹی کی انگیٹھی،پانی کا گھڑا رکھنے کا اوٹا،اور وہ سب چیزیں جو گھر کی زینت تھیں، مصنفہ کی یاد کا دیپ بن کر قلب وذہن کو منور کررہے ہیں ۔نسیم سلیمان کہراٹا پار آبشار کی سیر کراتی، کرم دین جولاہےکی بپتا سناتی، دوچھمبری کے چھمب دکھاتی،گردوارہ سری دیوی مندر کی سیرکراتی بزم اسرار میں شعر وسخن کی وایوں تک پہنچا دیتی ہیں۔ جہاں اسرار ایوب گویا ہیں
روز سورج تو ضیا بانٹنے آتا ہے مگر
جن کی بینائی نہ ہو ان کی سحر کیسے ہو
روالاکوٹ کی پیالہ نما وادی میں پھلدار باغوں کا حسن علی چاچا ہو یا وادی پونچھ کے جری جوانوں کی شہادت ، سکول جاتے بچوں کی حادثاتی شہادت کا ذکر ہو یا ایک شائستہ باوقار اور مہذب معلمہ مادر آف پکھر کا تذکرہ، نسیم سلیمان کا قلم رواں رہتا ہے ۔یادوں کے موتی بکھرتے ہیں ،دلوں پہ نقش ہوتے ہیں اور قاری کو ایک نئی دنیا سے آشنا کرتے چلے جاتے ہیں۔نسیم سلیمان رومانوی چاشنی، اور دلچسپ انداز بیاں سے قاری پر سحر طاری کرتی چلی جاتی ہیں۔ان کے ہاں سنجیدگی بھی ہے ،ہلکا تبسم بھی اور مزاح کے نادر نمونے بھی۔نسائی احساسات کی ترجمانی کرتی یہ تصنیف پہاڑی پونچھی تہذیب وثقافت کا خوبصورت مرقع ہے ۔دم توڑتی تہذیبی روایات اور نصف صدی پہلے کا کلچر نسیم سلیمان کی یادوں کا سفر بن کرقلب وذہن پر نقش ہوتا ہے۔کتاب کا سرورق نہایت دلکش اور دیدہ ذیب ہے رات کی سیاہی میں روشنی بکھیرتے دیپ جگمگا رہے ہیں ۔یاد کے چراغوں کی یہ روشنی ” دیپ بکھری یادوں کے ” میں سنہری روپ بھر کر پہلی نظر میں ہی کشش اور تجسس کا سماں باندھ دیتے ہیں۔نیچے مصنفہ کا نام نسیم سلیمان سفید رنگ میں نستعلیق رسم الخط سے رقم ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں مصنفہ نے اپنی پہلی تخلیق ” یادوں کی الماری” کی پذیرائی پر تشکر کا اظہار کیا ہے اور نئی تخلیق کی پیشکش کی ہے۔حرف چند ممتاز غزنی نے لکھا ہے ممتاز غزنی پہاڑی پونچھی تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں اور پہاڑی زبان اور ثقافت کے گہرنایاب تلاش کرنے اور محفوظ کرنے میں سرگرم رہتے ہیں۔” بچپن لوٹا دو” اور “بکھیاں دوھریاں” جیسی تصنیفات کے خالق ممتازغزنی نے حرف چند میں نسیم سلیمان کی کاوش کی پذیرائی کی ہے اور یادوں کی المیاتی کشمکش کا احوال دلچسپ انداز میں قلمزد کیا ہے ۔کتاب نگر، غزنی سٹریٹ لاہور سے 2022ء میں شائع ہونے اس کتاب کے ناشر محمد فہیم اور قیمت 550 روپے ہے۔پوری کتاب تجسس سے بھرپور ہے مختصر شگفتہ انداز اور ہر عنوان تین چار صفحات پر مشتمل ہے ۔نسیم سلیمان کی یہ خوبصورت کاوش پہاڑی پونچھی تہذیب وثقافت کی بہترین ترجمان ہے جس میں پہاڑی زبان کے الفاظ ، کہاوتیں، محاورات قاری کو ماضی میں لے جاتے ہیں مزاحیہ اور شگفتہ تحریریں حال کی سیر کراتی ہیں اور وادی پرل اور کشمیر کے نظارے مستقبل کے کشمیر کے نقش ابھارتے ہیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں