سردار تنویر الیاس ناکام کیوں ہوئے؟…. ارشادمحمود

آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کی پاداش میں ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے نااہل کردیا۔ خطے کی تاریخ میں یہ ایک غیرمعمولی عدالتی فیصلہ ہے۔ تنویر الیاس نے حالیہ دنوں میں متعدد مرتبہ عدلیہ بارے تضحیک آمیزتبصرے کیے تھے۔ الزام لگایا کہ عدلیہ حکومت کے روزمرہ کے معاملات میں روڑے اٹکاتی ہے۔ اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ چند ہفتوں میں عدالتوں کو “ٹھیک” کریں گے بلکہ وہ ججوں کا ’’دھواں‘‘ نکالیں گے۔
بے جا خود اعتمادی کے شکار تنویر الیاس بھول گئے کہ معزز جج حضرات پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کے ملازم نہیں کہ جب چاہا محفل سے اٹھا دیا۔ دل سے اتار دیا۔چنانچہ عدالت نے انہیں سیاست کے کھیل سے مکھن کے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ ایسا سلوک ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اگرچہ عدالت کے اس طرز عمل کی ان کے مخالف سیاسی حلقوں نے بھی ستائش نہیں کی لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا۔
سیاست میں تنویر الیاس کے سبک رفتار عروج کا سبب ان کے خاندان کی بے پناہ دولت، پاکستانی اشرافیہ بالخصوص سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ دوستانہ اور کاروباری مراسم بتایاجاتا ہے۔ ان کے خاندان کی معاشی خوشحالی کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوتاہے۔ تنویر الیاس کے والد سردر الیاس خان نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ محنت اورکاروباری دانش کی بدولت سعودی عرب میں ان کے لیے کامیابی کے در چوپٹ کھلتے گئے۔ دولت ہن کی طرح چاروں طرف سے برسی۔ نوجوان تنویر الیاس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بنگوئیں میں حاصل کی۔ چند برس تک ارجہ کے ایک مدرسے میں بھی زیر تعلیم رہے۔ لیکن جلد مدرسہ چھوڑ کر اسلام آباد چلے آئے۔
تنویر الیاس کے چچا سردار صغیر خان زمانہ طالب علمی میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے۔ بعدازاں سردار خالد ابراہیم خان کی جموں وکشمیر پیپلزپارٹی سے منسلک ہوگئے۔ نوئے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو سے علیحدہ ہوکر سردار خالد ابراہیم نے اس نام سے ایک الگ جماعت بنائی تھی۔ مدتوں وہ اس جماعت کے ہم رکاب رہے۔ خاندان آسودہ حال اور وسائل کی فراوانی تھی۔ قیبلے کے بڑوں نے باہمی مشاورت سے سردار صغیر خان کو مسلم کانفرنس کے پرچم تلے الیکشن میں اتارا۔ پونچھ کے حلقہ نمبر پانچ میں الیکشن مہم کے دوران انہوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ شنید ہے کہ ووٹروں میں نقد رقم بھی تقسیم کی گئی۔ اسمبلی کی نشست وہ جیت گئے۔ میرپور اور کوٹلی کے برعکس جہاں الیکشن مہم میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، پونچھ میں الیکشن چند لاکھوں روپے میں لڑا جاتاتھا لیکن سردار صغیر نے ووٹروں کو روپے پیسہ میں تولنے کا سلسلہ اس علاقے میں پہلی بار متعارف کرایا جسے سردار تنویر نے عروج تک پہنچایا۔
سردار صغیر جولائی 2021 کے الیکشن سے قبل ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے لیکن وہ ایک شریف اور ہمدرد شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔سردر صغیر خان کا اپنا کوئی خاص کاروبار نہ تھا۔ اس کے برعکس نوجوان تنویر الیاس اسلام آباد کی آئی کونک بلڈنگ سینٹورس کے صدر بلکہ عالی نال تھے۔ دولت کی دیوی مہربان ہوئی تو عزت اور شہرت کے حصول کے لیے سرگرداں ایسا ہوئے کہ سب کچھ داؤ پر لگادیا۔ سردار صغیر خان کی سیاسی کامیابی سے ان کا یہ خیال پختہ ہواکہ سیاست پیسہ کا کھیل ہے اور پیسہ ان کے ہاتھوں کی میل ہے۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ دولت کے بل بوتے پر وہ سیاست میں نام ہی نہیں منصب بھی حاصل کریں گے۔
اسلام آباد میں سینٹورس مال حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔پرویز مشرف کے دور میں تنویر الیاس نے خیبر پختوں خوا سے سینٹ کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کی۔ قاف لیگ سے بات پکی ہو گئی تھی لیکن مقامی ڈومیسائل نہ ہونے کی بنا پر کاغذات نامزگی مسترد کردیئے گئے لیکن ہمت نہ ہاری۔ پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو موصوف نے پی پی کی لیڈرشپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے اور ایک بار پھر کوشش کی کہ سینٹ کا ٹکٹ حاصل کیا جائے۔ لیکن آصف علی زارداری آڑے آئے اور یہ بیل منڈھا نہ چڑھ سکی۔
جلد ہی تنویرالیاس کو احساس ہوا کہ سیاست میں نمودار ہونے کے لیے انہیں ملک کے ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی پشت پنائی درکار ہے۔ وہ ہی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ 2018کے جنرل الیکشن کے لیے بننے والے نگران سیٹ اپ میں انہیں پنجاب میں صوبائی وزیر زراعت بنایاگیا۔ تنویرالیاس نے یہ خبر ٹی وی پر سنی تو آرزدہ لہجے میں کہا کہ وفاقی وزیر کا وعدہ تھا۔ نگران وزیرکے طور پر انہوں نے لاہور میں میڈیا اور طاقت ور حلقوں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے سرکاری اور ذاتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ بعدازاں وزیراعلٰی پنجاب کے مشیر برائے سرمایاکاری بورڈ بن گئے۔ پنجاب سے کشمیر کا سفر تنویر الیاس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ 2020 میں مقتدر حلقے اور پی ٹی آئی دونوں ایک صفحے پر تھے۔ وقت کے تیور بتارہے تھے کہ اگلے دس برس تک عمران خاں بلاشرکت غیرے پاکستان پر راج کریں گے۔ حکومت مخالف سیاست دان اور جماعتیں شکست خوردہ اور منتشر تھیں۔ ان کے سرکردہ لیڈر کرپشن کے مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ آزادکشمیر کے الیکشن جولائی 2021میں ہونے تھے۔ تنویرالیاس نے میڈیا کے ذریعے آزادکشمیر کی سیاست پر تبصرے کرنا شروع کردیئے۔ ان کے حامی صحافیوں اور سیاسی کارکنان نے سوشل میڈیا پر مطالبہ شروع کردیا کہ وہ کشمیر کی سیاست میں حصہ لیں تاکہ ’’نیا کشمیر‘ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی خیرہ کن تصویر پیش کی گئی۔ ان کا امیج ایک مخلص اور ان تھک شخص کے طور پر ابھارہ گیا۔
بیرسٹر سلطان محمود2021 سے خطے میں پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ وہ ایک معمر روایتی سیاستدان ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں وزارت عظمی پر فائز کیا لیکن وہ زیادہ دیر پی پی پی کے ساتھ وفا نہ کرسکے۔ مقتدر حلقوں کی شہ پر پی پی پی سے راہیں جدا کیں۔ پیپلزمسلم لیگ کے عنوان سے ایک جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ آزادکشمیر میں سیاست میں کامیابی کے لیے وفاقی جماعتوں کی بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں بیرسٹر سلطان نے مسلم لیگ نون کی لیڈرشپ کے ساتھ پینگیں بڑھائیں لیکن مسلم کانفرنس کی موجودگی میں وہ کسی اور کی حمایت پر تیار نہ تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں چودھری شجاعت حسین نے پشت پنائی کا وعدہ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی پیٹھ ٹھونکی۔ طے پایا کہ 2006 کے الیکشن میں وہ قاف لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک سے آزادکشمیر کے وزیراعظم بن جائیں گے لیکن سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے چند مشترکہ دوستوں کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کو شیشہ میں اتار لیا۔
مشرف کو کشمیر پر چارنکاتی فارمولہ کی حمایت کے لیے موثر سیاسی قوتوں کی تائید درکار تھی۔سردار عبد القیوم خان جیسے جہاندیدہ سیاست دان کا تعاون انہیں دستیاب ہوگیا۔ سردار عبد القیوم خان کو مشرف کا تعاون چاہیے تھا تاکہ مظفرآباد کی کرسی پر اپنے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کو متمکن کرسکیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے لگے۔ الیکشن سے قبل ہی سردار عتیق خان کو وزیراعظم کا پروٹوکول دیا جانے لگا۔ مسلم کانفرنس کی فتح نوشتہ دیوار تھی۔
برسٹرسلطان کہتے ہیں کہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کوئی ان کا فون سننے کا روادار نہ تھا۔مشکل سے چودھری شجاعت سے ایک دوست نے فون پر رابطہ کرایا۔ معذرت خواہانہ انداز میں انہوں نے کہا: بیرسڑ صاحب ہم نے مسلم کانفرنس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ مشرف صاحب کا حکم ہے۔ الیکشن میں بیرسٹر سلطان کی پیپلزمسلم لیگ بری طرح پٹ گئی۔ بعدازاں وہ پی پی پی میں دوبارہ اس امید پر شامل ہوئے کہ انہیں وزارت عظمی پر فائز کیاجائے گا لیکن پی پی پی نے انہیں وزارت عظمی کا ’’لولی پاپ‘‘ دے کر پرانا بدلا چکایا۔
چنانچہ ناراض اور ناخوش بیرسٹر سلطان محمود کے پاس پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اگرچہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور کراچی میں مقبول پارٹی تھی لیکن آزادکشمیر کے سیاسی منظرنامہ میں جگہ نہیں بناپارہی تھی۔عمران خاں نے سردار خالد ابراہیم خان مرحوم کو پی ٹی آئی کی کشمیر میں قیادت کرنے کی درخواست کی۔ دوچار ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن دونوں کی کیمسٹری نہ ملی۔
پانچ فروری 2016 کو آزادکشمیر کے الیکشن سے محض پانچ ماہ قبل اسلام آباد میں عمران خاں جب اسٹیج پر نشست سنبھال چکے تھے تو بیرسٹر سلطان نعروں کی گونچ میں ہال میں ایک فاتح کی طرح داخل ہوئے۔ سارا وقت ہال بیرسٹر کے نعروں سے گونچتارہا۔ عمران خاں نے حیرت سے اپنے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی: آج سے پی ٹی آئی میں میرے علاوہ ایک اور لیڈر آگیا ہے۔
آزادکشمیر کی الیکشن مہم میں بیرسٹر نے جہانگیر ترین کی مدد سے اپنی مرضی کے امیدواروں کھڑے کیے۔ بھرپور الیکشن مہم چلی لیکن بیرسٹر سلطان نہ صرف خود الیکشن ہار گئے بلکہ آزادکشمیر سے پی ٹی آئی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔ عمران خاں نے ایک محفل میں کہا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی جب حکومت ہوگی تو کشمیر ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی ماند آگرے گا۔ آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد اگرچہ بیرسٹر سلطان عمران خاں سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے لیکن دونوں کے درمیان کبھی دوستانہ تعلقات استوار نہ ہوسکے۔ بقول نصیر ترابی کے کیفیت کچھ رہی وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی۔
عمران خان جلسوں میں بیرسٹر سلطان کانام تک لینا گورا نہ کرتے حالانکہ بیرسٹر خون پسینہ ایک کرکے کشمیر کے طول وعرض میں ان کے لیے عظیم الشان جلسے منعقد کراتے۔ خان نے کبھی بھی دل سے بیرسٹر کو ایک لیڈر کے طور پر قبول نہ کیا۔
بیرسٹر دھڑے کی سیاست کرتے ہیں وہ پارٹی کے اندر بھی دھڑا بناکر کھیلتے ہیں۔ پارٹی کے اندر جو نظریاتی یا پرانے لوگ تھے وہ رفتہ رفتہ بیرسٹر کے خلاف متحرک ہوگئے کیونکہ وہ نظر انداز ہورہے تھے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو آزادکشمیر میں پارٹی کے نظریاتی لوگ متحرک ہوگئے۔انہیں مرکزی پارٹی کی بھی پشت پناہی حاصل تھی۔ یوں بیرسٹر سلطان اور نظریاتی ورکروں اورلیڈروں کے درمیان زبردست خلیج پیدا ہوگئی۔ راجہ مصدق خان جو پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، الگ دفتر لگاتے جب کہ بیرسٹر اپنی محفل ایک اوردفتر کے سبزہ زار پر سجاتے۔
اس کشمکش میں سردار تنویر الیاس ایک متبادل آپشن کے طور پر منظر عام پر ابھرے۔ بیرسٹر سلطان نے خطرہ بھانپ کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ الیکشن نہ لڑیں۔ بلکہ الیکشن کے بعد صدر آزادکشمیر بن جائیں لیکن تنویر الیاس ہٹ کے پکے نکلے۔
بیرسٹر سلطان کے پارٹی کی مرکزی لیڈرشپ کے ساتھ بھی سازگار مراسم نہ تھے۔ اس کے برعکس وزیرامور کشمیر علی امین گنڈا پور کی تنویرالیاس سے گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں کے مشاغل اور دلچسپیاں بھی ایک جیسی تھیں۔ شب بھر مشغول رہتے اور دن بھر محو استراحت رہتے۔ علی امین نے بھی اپنا بوریا بستر سینٹورس میں منتقل کرلیا۔ کشمیر کے معاملات میں علی امین اسٹبلشمنٹ کے ساتھ فوکل پرسن تھے۔ تنویر الیاس نے سینٹورس میں پی ٹی آئی کی دوسری صف کی لیڈرشپ کو مدعو کرنا شروع کردیا۔ تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جانے لگا۔ بیرسٹر سلطان محمود سے شاکی اور نئی لیڈرشپ کے متمنی لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔
تنویر الیاس کے پاس مالی وسائل بھی بے محابا تھے اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہانے کا دم خم بھی۔ بتدریج بیرسٹر سلطان کے مرکزی دفتر میں لوگوں کی آمد رفت کم ہوتی گئی جہاں وہ قہوے کی پیالی اور بسکٹوں سے مہمانوں کی توضع کرتے۔اس کے برعکس سینٹورس میں دن رات لنگر چلتا۔
بیرسٹر سلطان محمود کے پاؤں کے نیچے سے چادر سرک رہی تھی۔ سیاست ان کے ہاتھ سے ایسے پھسل رہی تھی جیسے ریت مٹھی سے۔بچاؤ کے لیے انہوں نے کافی ہاتھ پاؤں مارے۔ کئی مرتبہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے۔ جنرل باجوہ اپنے جاٹ بھائی بیرسٹر کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی پوزیشن نہیں لے پاتے تھے۔بیرسٹر کی باجوہ کے ساتھ میٹنگوں کا جنرل فیض کے ساتھی بہت برا مناتے۔ انہوں نے کئی بار بیرسٹر کو منع کیا کہ وہ انہیں بائی پاس نہ کریں۔ کچھ نشستوں میں بات توتکار تک بھی پہنچی۔ بیرسٹر کو یقین تھا کہ جنرل فیض اور ان کے ساتھی تنویر الیاس کا ساتھ دینے پر کمر بستہ ہوچکے ہیں لہٰذا ان کا سارا انحصار جنرل باجوہ کی حمایت پر تھا۔
الیکشن سے چندروز قبل بیرسٹر کو الیکشن مہم اور فیصلہ سازی کے سارے معاملات سے اچانک الگ تھلگ کردیاگیا۔ وزیزاعظم ہاؤس یا بنی گالہ میں ہونے والی نشستوں میں انہیں رسماً دعوت دی جاتی لیکن ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ تنویرالیاس اور علی امین گنڈا پور نے پارٹی کی کمان مکمل طور پر سنبھال لی تھی۔ عمران خاں کے ساتھ ہونے والے کئی اہم اجلاسوں میں بیرسٹر سلطان کو مدعو ہی نہیں کیاگیا۔ ایک بار عذر پیش کیاگیا کہ میٹنگ صبح سویرے تھی اور بیرسٹر سے رابطہ نہ ہوسکا۔ وقت کے وزیراعظم عمران خاں کے ساتھ تصویر تنویر الیاس کی سوشل میڈیا کی زینت بنتی تو لوگوں کو مستقبل کی سمت کا اشارہ ہوجاتا۔
گنڈا پور اور تنویرالیاس کئی الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے میںبھی کامیاب ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں کی بھرپور پشت پنائی کی اور انہیں الیکشن جیتنے کے لیے ہرممکن تعاون فراہم کیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر ٹکٹ ہولڈرز نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
تنویر الیاس نے پارٹی کی الیکشن مہم کے لیے وسائل فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ امیدواروں کو پارٹی نے جو فنڈز دیئے ان کا بڑا حصہ تنویر الیاس نے فراہم کیا۔ میڈیا مہم کے لیے کڑوروں روپے علی امین گنڈا پور نے تنویر الیاس کی تجوری سے نکالے۔وسطی باغ جہاں سے تنویر الیاس نے الیکشن جیتاوہاں خزانے کا منہ کھول دیاگیا۔ بہتی گنگا میں ہر ایک نے اشنان کیا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے اہم عہدیداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ چند ہفتے قبل جب کاروباری معاملات پر خاندان میں پھوٹ پڑی تو ان کے والد سردار الیاس خان اور بھائیوں نے ایک پریس نوٹ میں الزام لگایا کہ ان کی رضامندی کے بغیرتنویر الیاس نے مشترکہ کاروبار سے سیاست پر 10 ارب روپے پھونک ڈالے۔
الیکشن کے بعد خصوصی نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو پی ٹی آئی کے پرانے نظریاتی لیڈروں بشمول اس کے بانی صدر ڈاکٹر لطف الرحمن کو پارٹی نے کوئی اہمیت نہ دی۔حتیٰ کہ انہیں مخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستوں پر بھی نظر انداز کردیا گیا۔ زیادہ تر مخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستیں دولت مند افراد کو منتخب کرایا گیا یا جن کی سفارش کسی بڑی شخصیت نے کی۔ ایسے ایسے لوگ بھی کشمیر کونسل کے رکن بن گئے جن کی شکلیں پی ٹی آئی کے کارکنان نے کبھی دیکھی بھی نہ تھیں۔
الیکشن کے بعد علی امین گنڈاپور اور جنرل فیض کی ٹیم کی کوشش تھی کہ تنویر الیاس کو وزیراعظم کو منتخب کرایا جائے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے الیکشن مہم میں چلا چلا کر الزام لگایا تھا کہ عمران خاں نے کشمیر میں پارٹی ایک اے ٹی ایم مشین کو بیچ ڈالی ہے۔ عمران خاں نہیں چاہتے تھے کہ مخالفین تنویر الیاس سے رقم بٹورنے کا ان پر الزام لگائیں۔ انہوں نے بڑی مشکل سے ان ہی دنوں جہانگیرترین سے جان چھڑائی تھی۔
جنرل باجوہ نے بیرسٹر سلطان کی سفارش ضرور کی لیکن جنرل فیض کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ بیرسٹرسلطان اور تنویر الیاس کے درمیان جاری کشمکش میں قرعہ سردار عبدالقیوم خان نیازی کے نام نکلا۔ پونچھ کے ایک سرحدی علاقے کے باسی اس سیاستدان کے کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ایک دن وہ بھی وزیراعظم منتخب ہوسکتے ہیں۔ نیازی نو ماہ کے لگ بھگ وزیراعظم کی کرسی پر فائز رہے۔ تنویر الیاس نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ حکومت میں سینئر وزیر کے طور پر نامزد ہونے کے باوجود تنویر الیاس دفتر آئے اور نہ ہی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ انہوں نے ایک گروپ بنا کر حکومت کے ناک میں دم کیے رکھا۔ علی امین گنڈا پوری اور عمران خاں نے بھی اصلاح احوال کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ سردار نیازی کو میدان میں اتار کر اکیلا تاک شکاریوں کے آگے ڈال دیا گیا۔
اپریل 2022 میں عمران خاں کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ موقع غنیمت جان کر گنڈا پور اورتنویرالیاس نے پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں کو قائل کیا کہ اگر قیوم نیازی کی جگہ تنویر الیاس کو وزیراعظم نہ بنایاگیا تو اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد پیش کرکے پی ٹی آئی مخالف حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔عمران خاں تازہ تازہ زخم خوردہ تھے۔ انہوں نے بغیر کسی تحقیق کے اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا گرین سگنل دے دیا۔
سردار تنویر الیاس وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ توقع تھی کہ وہ آزادکشمیر میں تیز رفتار ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرانے کے لیے غیر معمولی جوش اور جذبے سے کام کریں گے۔ چونکہ ان کا تعلق کارپوریٹ ورلڈ سے تھا لہٰذا وہ اس تجربے کو کام میں لا کر اس چھوٹے سے خطے میں معاشی انقلاب برپا کریں گے۔ مقتدرحلقوں کو امید تھی کہ سردار تنویر الیاس جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی کے تحت رفتہ رفتہ آزادکشیمیر کا موجودہ اسٹیٹیس ختم کرانے میں مدد گار ہوں گے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے تاریخی تعلق کو رفت گزشت کرانے میں معاونت کریں گے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں آزادکشمیر کی نمائندگی کی بات بھی کی لیکن سازگار عوامی رسپانس نہ ملا۔ بعدازاں انہیں ہدف دیا گیا کہ قوم پرست حلقوں کو انتظامی اور سیاسی طاقت کے ذریعے کچلیں۔ انہوں نے مظفرآباد میں ایک تقریب میں کہا کہ قوم پرست بھارت کے ایجنٹ ہیں اور میں مظفرآباد کو ان کے لیے تہاڑ جیل بنادوں گا۔ تہاڑ جیل دہلی میں بطل جیل مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی جیل میں جناب یاسین ملک اور سینکڑوں حریت پسند کشمیری اسیر ہیں۔ ان کی اس گفتگو پر اس قدر سخت عوامی ردعمل آیا کہ تنویر الیاس اور ان کے ہینڈلرز کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
باجوہ کی باقیادت چاہتی تھیں کہ آزادکشمیر کو حاصل آئنیی، مالی اور انتظامی اختیارات چھین لیے جائیں۔ تنویر الیاس نے اس سمت ابتدائی دنوں میں پیش رفت کرنا چاہی لیکن ابھی دو گام ہی چلے تھے کہ عوامی موڈ دیکھ کر یکدم پسپائی اختیار کرلی اور بااختیار آزادکشمیر کی نعرہ مستانہ بلند کردیا۔
مقتدرہ سے وعدے پورے نہ کرسکے تو رفتہ رفتہ ان کے اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔متلون مزاجی، بری حکمرانی اورکارحکومت کو وقت نہ دے سکنے کی بدولت مقتدر قوتوں کے لیے وہ ایک بوجھ بن چکے تھے۔ چنانچہ ساحر لدھیانوی کے بقول فیصلہ کیا گیا کہ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
سردر تنویر الیاس کے اقتدار کا ایک سال وفاقی حکومت، اپنی کابینہ کے ساتھیوں،سرکاری ملازمین اور پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداروں کے ساتھ لڑائیوں اور جھگڑوں کی نذر ہوگیا۔ عالم یہ تھا کہ وزیراعظم نے چار بار اپنا پرنسپل سیکرٹری بدلا۔ اسٹاف میں دوماہ سے زیادہ کسی کو برداشت نہ کر پاتے۔ وہ زیادہ دیر کسی بھی شخص سے خوش نہیں رہ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ میرپور میں ایک تقریب میں بری طرح الجھ پڑے۔ بعدازاں ایک طویل پریس کانفرنس میں وزیراعظم شہبازشریف کو ‘کشمیر مخالف’ قرار دیا۔
غیر متوازن طرزعمل کی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ادارہ جاتی روابطہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کار استوار کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے۔ ان کی نااہلی کے نتیجے میں کشمیریوں کو بہت بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ وفاقی حکومت نے تنویر الیاس کی ضد میں ترقیاتی بجٹ کی فراہمی میں نمایاں کمی کی۔ خصوصی ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق سے مالی امداد نہ مل سکی۔ نتیجتاً معاشی سرگرمیوں سست پڑھ گئیں۔ بہت سے منصوبے ناکافی فنڈز کے باعث کھٹائی میں پڑھ گئے۔ مزید برآں ان کے دور میں انفراسٹرکچر ڈولپمنٹ کا کوئی ایک بھی نیا منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا۔ نتیجتاًخطے کی اقتصادی ترقی بری طرح جمود کا شکار ہوئی۔
بطور وزیراعظم وہ کم ہی آزاد کشمیر تشریف لےجاتے۔ایک بار عمران خان نے انہیں فون کرکے کہا کہ وہ مظفرآباد جائیں۔ زیادہ تر اسلام آباد میں قیام کرتے۔ اسلام آباد میں قائم کشمیر ہاؤس میں سرکاری افسران کے اجلاس طلب کرتے لیکن خود شرکت نہ کرپاتے۔ کابینہ کے اجلاس ایک نہیں درجنوں بار محض اس لیے لیٹ یا ملتوی ہوجاتے کہ موصوف دستیاب ہی نہ ہوتے۔ عالم یہ ہے کہ بارہ ماہ کے دوران اپنے آبائی ضلع پونچھ جانے کا وقت نہ نکال سکے۔
سائل فائلوں کے ساتھ دوڑتے۔ فائلوں کے انبار جمع ہوجاتے۔ سائلین کبھی اسلام آباد میں ان کا تعاقب کرتے اور کبھی مظٖفرآباد کے چکر کاٹتے۔ لوگ ان کے گھر اور دفتر میں صبح آکر بیٹھتے اور رات گئے تک انہیں وزیراعظم کا دیدار نصیب نہ ہوتا۔ سینئر اہلکار انہیں سرکاری امور پر بریف کرناچاہتے لیکن وہ موقع ہی نہ دیتے۔باتوں کے ایسے دھنی کہ جو ہاتھ لگ جائے اس کے ساتھ گھنٹوں بے تکان اور بے ربط گفتگو کرتے۔ وہ صرف اور صرف اپنی آواز سے محبت کرتے۔ دوسرے کی بات توجہ سے سننے اور سمجھنے کا انہیں ہنر ہی نہ تھا۔
انہوں نے کشمیر میں ایک شاہانہ طرز سیاست متعارف کرایا۔اکثر ہیلی کاپٹر یا گاڑٰیوں کے ایک بڑے قافلے میں سفر کرتے۔ سرکاری خزانہ کو مال مفت دل بے رحم کی طرح برتے۔ ارکان اسمبلی، سابق صدور، وزراعظم اور کابینہ کے ارکان کو سرکاری خزانے سے تقریباً ایک ارب کی لاگت سے بالکل نئی گاڑیاں فراہم کیں۔ مالی بحران کے باوجود اپنے اور صدر کے لیے پرتعیش مرسڈیز بینز کاروں کا آرڈر دیا۔ دوسری جانب ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
پچاس کے لگ بھگ مشیروں، معاونین خصوصی اور رابطہ کاروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی۔جس میں سے اکثر کا کام نرگسیت کے شکار تنویر الیاس کی انا کو گنا رس پلانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حتیٰ کہ عمران خان کے خلاف ٹی وی پروگراموں میں بے سروپا گفتگو کرنے والے ایک ریٹائرڈ میجر روکھڑی کو اپنا خصوصی ایلچی برائے اسٹیبلشمنٹ بنائے رکھا۔ یہ شخص ٹی وی پر عمران خان پر لعن طعن کرتا اور رات کو تنویر الیاس کا حقہ بھرتا۔ روکھڑی ایک ادارے میں کسی ذمہ دار عہدے پر فائر ایک افسر کے ساتھ اپنا تعلق جتاتا اورانعام و اکرام پاتا۔ تنویر الیاس کے کرفر آزاد کشمیر جیسے غریب اور پسماندہ علاقے کے وزیراعظم کے نہیں بلکہ برونائی کے سلطان جیسے تھے۔
عوامی اجتماعات میں وہ ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مذہبی کارڈ بھی بھرپور طریقہ سے کھیلتے۔ تقریبات میں دوردشریف کے ورد کی تلقین کرتے لیکن جب حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا ذکر آتا تو وہ اکثر پٹری سے اتر جاتے۔ اسمبلی اندر اور باہر ان پر کیچڑ اچھالتے۔ پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما چودھری لطیف اکبر کی سرعام تذلیل کی۔ بعدازاںمعافی مانگنے ان کے گھر چلے گئے۔ جو کوئی ان کے طرزعمل پر تنقید کرتا۔ اس کی قیمت لگاتے۔ بکنے پر تیار نہ ہوتا تو کردار کشی پر اترآتے۔ دولت کا ایسا گھمنڈ کہ اللہ معاف کرے۔ اکثر کہتے کہ نون لیگ اور پی پی پی کی لیڈرشپ میری جیب میں ہے۔ کیونکہ میں ان کی ضروریات کا خیال رکھتاہوں۔
خوش فہمی کا اس قدر شکار کہ اکثر کہتے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میرے وزیراعظم بننے سے خوف زدہ ہے۔ ماہرین مدح سرائی جھوم جھوم کر ان کی مقبولیت کے راگ الاپتے۔ موصوف جلسوں میں غراتے کہ اگر مجھے نکلا گیا تو اس قدر مزاحمت ہوگی کہ لوگ مقبوضہ کشمیر بھول جائیں گے۔ عدالت نے نااہل قراردیا تو آزادکشمیر میں معمولی سا احتجاج بھی نہ ہوا۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے بھی ان کی نااہلی پر برا نہیں منایا۔ عمران خان نے ایک ٹویٹ تک کرنا گورا نہ کیا۔ آزادکشمیر کی تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکنوں کے لیے یہ خبر قطعاً اضطراب کا باعث نہ بنی۔
تنویر الیاس کے عروج و زوال کی کہانی نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے کہ اعلیٰ عہدوں صرف ان ہی لوگوں کو فائز کیاجانا چاہیے جن کی سیاسی تربیت اور عوامی خدمت کا تجربہ ہو۔ نہیں دو سال سے کم عرصے تیسرا وزیراعظم بنانا پڑتاہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو اس تجربہ سے سبق سیکھ کرپارٹی کی سطح پر فیصلہ سازی کا کوئی سائنٹیفک میکانزم بنانا چاہیے جس کی بنیاد سفارش اور پیسے کے بجائے خدمت اور کردار ہو۔
بیرسٹر سلطان نے پارٹی کی چھ برس تک قیادت کی تھی۔ فقط ضد، سفارش اور لکشمی کے زیر اثر فیصلہ نہ کیا جاتا تو وہ آج وزیراعظم ہوتے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ انہیں یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔
کہتے ہیں غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔ عمران خان نے آزادکشمیر میں حکومت سازی میں جو غلطی کی اس کی انہوں نے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام کو بھی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
افسوس! سردار تنویر الیاس کا شمار ان وزرائے اعظم میں ہوگا جو اس خطے کی سیاست پر انمنٹ نقوش چھوڑنے میں بری طرح ناکام رہے۔ وہ کوئی ایسی لیگیسی نہ چھور سکے جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کرسکیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں