سچ تو یہ ہے،ایورڈ کشمیر کے نام۔۔۔بشیر سدوزئی

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی عالمی اردو کانفرنس ایک برانڈ بن چکا جس کے انعقاد کا دنیا بھر میں انتظار رہتا ہے، اس سال یکم تا چار دسمبر 2022ء کو منعقد ہونے والی پندرویں عالمی اردو کانفرنس کا حال احوال محترم عطا الحق قاسمی،حامد میر،صغرہ صدف اور اس نوعیت کے دیگر سینئیر و جید صحافیوں و عالموں کے لکھنے کے بعد ہم جیسوں کے لیے لکھنے کو کچھ رہ نہیں جاتا، لیکن ایک گوشہ ایسا بھی ہے جس پر بڑے لکھاریوں نے توجہ نہیں دی۔اور وہ کشمیر ہے جس کا اسی سال اضافہ ہوا۔ آزاد جموں و کشمیر کے شہر راولاکوٹ جہاں عین اسی دن بلدیاتی انتخابات کا زور شور تھا کا ایک ہونہار فرزند معروف ادیب، شاعر اور دانشور ڈاکٹر محمد صغیر خان نے یارک شائر ادبی فورم ایوارڈ وصول کیا اور اسی لمحے اعلان کیا کہ یہ ایوارڈ میں دھرتی ماں کشمیر کے نام کرتا ہوں جو میری شان ہے آن ہے میری پہچان ہے۔اس اعلان کے ساتھ ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور حاضرین کانفرنس کو مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت مانگنے پر انسانوں پر ہونے والے مظالم یاد آ گئے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ہوئی۔ گزشتہ پندرہ سال سے اردو کانفرنس میں یارک شائر ادبی فورم کی جانب سے دو ایوارڈ ملک کے معروف ادیبوں، شاعروں کو ان کی اعلی ادبی و علمی خدمات پر دئیے جاتے ہیں جس کے ساتھ پچاس ہزار کی رقم بھی ہوتی ہے۔ پندرویں ایوارڈ کے لیے ملک کیمعروف ادیب اور فکشن رائٹر اسد محمد خان کو منتخب کیا گیا۔اسد محمد خان کی شخصیت اور فن کے بارے میں کیا لکھا جائے میرے پاس تو الفاظ کم ہیں وہ خود اپنا تعارف ہی کافی ہیں کہ یہ اسد محمد خان ہیں، تاہم ان کے ہمراہ جس شخصیت کا اس ایوارڈ کے لیے انتخاب ہوا وہ راولاکوٹ آزاد کشمیر کے ڈاکٹر محمد صغیر خان ہیں۔ گو کہ ڈاکٹر صاحب علمی، ادبی اور تحقیقی اعتبار سے بڑے آدمی ہیں کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس وقت آزاد کشمیر میں پی ایچ ڈی کرنے والے کم، کم ہی تھے۔ شعبہ تدریس سے منسلک اور ماڈل کالج کے پرنسپل ہیں۔انہوں نیاردو اور پہاڑی زبانوں میں 13 کتابیں تخلیق کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی پی ایچ ڈی تو اردو میں ہے لیکن پہاڑی زبان میں زیادہ لکھتے ہیں بلکہ اردو کو بھی پہاڑی لہجہ دینے کے فن میں یکتا ہیں،ڈاکٹر صاحب کا کالم اردو پہاڑی زبانوں کے امتزاج کا بہترین نمونہ ہوتا ہے۔ ان کے اسی اسلوب تحریر یا پہاڑی ادب کی تخلیق پر اس ایواڈ کے لیے انتخاب ہوا لیکن اہل کشمیر اور خاص طور پر اہلیان راولاکوٹ کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہاں کے ایک فرزند نام دار نے عصر حاضر میں دنیا اردو کے سب سے بڑے میلے میں ایوارڈ وصول کیا جہاں لوگ شرکت کرنے کے لیے مہنوں پہلے عرضی بھجتے ہیں۔تاہم اس سے بھی بڑے اعزاز کی بات یہ کہ اسد محمد خان کے ساتھ کھڑے ہو کر ایوارڈ وصول کرنے سے اس ایوارڈ کی اہمیت اور افادت میں اور اضافہ اور ڈاکٹر صاحب کے فن کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانے لگا، ایوارڈ وصول کرنے کے بعد انہوں نے خود اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے اس کا اظہار بھی گیا۔اسد محمد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ہاتھی اور چوہے کی مثال دی اور کہا کہ اسد محمد خان صاحب اب خیال سے گزرنا جس پل سے اردو ادب کا ہاتھی اسد محمد خان گزر رہے ہیں اس پر اب میرے جیسا ادب کا چوہا بھی سوار ہو گیا ہے خطرہ ہے اس بھاری بھرگم وزن سے پل ٹوٹ نہ جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس انکساری کو ایڈیٹوریم میں موجود حاضرین و ناضرین نے بہت پسند محظوظ کیا اور تالیوں کی گونج میں پذیرائی کی جب کہ فکشن کا بادشاہ کہلانے والا 90سالہ اسد محمد خان بھی مسکر دیے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جو اس سیشن کی صدر محفل تھی دونوں ایورڈ یافتہ شخصیات کو مبارک باد دی اور کہا کہ یارک شائر کے افراد دنیا بھر میں اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر خطہ کے ادیب شاعر نے مل کر ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں کشمیر کو بھی شامل کیا گیا ہے، کشمیر ہمارا دل ہے،جان ہے۔انہوں نے کہا کہ اسد محمد خان اردو دنیا کا بہت بڑا نام ہے اس سے یہ ایوارڈ معتبر ہو گیااور کشمیر سے آئے ہوئے مہمان ادیب ڈاکٹر صغیر خان کو آج کراچی آرٹس کونسل میں دنیا ادب کا معتبر ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا یہ ایوارڈ بہت تحقیق کے بعد مستنعد لکھنے والوں کو دیا جاتا ہے۔جو کچھ پڑتے ہیں ان کو اسد محمد خان کے تعارف کی ضرورت نہیں اور جو ڈاکٹر صغیر خان کو نہیں جانتے ان کے لیے اتنا تعارف کافی ہے کہ اسد محمد خان کے ساتھ دوسرا ایوارڈ ڈاکٹر صغیر خان کو دیا جا رہا ہے۔ظاہر ہے اسد محمد خان کے ساتھ منتخب ہونے والا شخص علمی اور ادبی اعتبار سے کتنا بڑا ہو گا اگر بہت بڑا نہیں تو اسد محمد خان کے آس پاس تو ہو گا ہی۔ کانفرنس کے آخری روز اختتامی اجلاس میں قراردادیں منظور کی جاتی ہیں جن میں اردو کی ترقی و ترویج کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کچھ مطالبات بھی کئے جاتے ہیں۔لیکن اس سال کی قراردادوں میں جو اس کانفرنس کا کل حاصل ہوتی ہیں کشمیر کو خاص طور پر شامل کیا گیا۔ یوں تو 14 قراردادیں منظورہوئی جن کو معروف دانشور ڈاکٹر جعفر احمد نے حاضرین کے سامنے پڑھا اور ان سے منظوری حاصل کی۔ کشمیر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” ا?رٹس کونسل ا?ف پاکستان کراچی کی یہ پندرہویں عالمی اردو کانفرنس اپنے چار روز پر پھیلے ہوئے اجلاسوں کے ا?خر میں مندرجہ ذیل قرارداد منظور کر رہی ہے۔ اس قرارداد کے مخاطب ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں، ہمارا وسیع تر معاشرہ اور اس میں شامل جملہ اہل قلم اور اہلِ فکر ہیں۔گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی ہم کشمیر میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حق خودارادیت کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔ اہل فکر ودانش کا یہ اجتماع رنگ و نسل، ملک و قوم اور مذہب سے قطع نظر سب انسانوں کے بنیادی حقوق پر مکمل یقین کا اظہار کرتا ہے اور جہاں کہیں بھی ان حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس کی مذمت کرتا ہے” علم و ادب کے ہزاروں طالب علموں پر مشتمل آرٹس کونسل کے جون ایلیا لان، لابی اور پارکنگ لاٹ میں موجود سامعین نے دونوں ہاتھ بلند کر کے اس قرارداد کی حمایت کی یوں پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں عاشقان زبان و ادب نے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے مطالبہ حق خود ارادیت کی حمایت کی۔اس کانفرنس کو آرٹس کونسل کے سوشل میڈیا چینل ہی نہیں دیگر سوشل میڈیا چینل اور الیکٹرانک میڈیا لائیو دیکھاتا رہا گویا اس کارروائی کو دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا جن میں جموں و کشمیر اور بھارت میں بھی دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔قارئین! آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی اس عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کو ہوتے یہ پندرھواں سال ہے اور اب پاک و ہند یا ایشیا ہی نہیں یورپ امریکا اور عرب و افریکا میں بھی تسلیم کیا جانے لگا کہ آج کی دنیا میں ادب کی سب سے بڑی کانفرنس ہے جس میں ہر سال ڈھائی سے تین سو زبان و ادب اور فن و ثقافت کے عالم نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنے،اپنے موضوعات پر مقالے بھی پڑتے ہیں۔ جب کہ کم از کم چالیس ہزار سے زائد افراد چار روز کے دوران شرکت کرتے ہیں سوشل میڈیا پر کروڑوں اس کانفرنس کے مختلف اجلاسوں سے منسلک رہتے ہیں۔ کانفرنس کے 48 سیشن یا پروگرام منعقد ہوتے ہیں، فن و ادب اور زبان سے متعلق ہر گوشے کو اس میں شامل اور اس کے مسائل کے حل اور بہتری کے لیے تجاویز تیار کی جاتی ہیں جو بعد میں برائے کارروائی حکومتوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ اب اس کانفرنس کی کارروائی میں علاقائی زبانوں اور کلچر کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ سندھی، بلوچی،سرائیکی، پہنجابی اور پشتوں میں سیمینار ہوتے ہیں ان زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں کی پذیرائی اور لکھنے والے ادیبوں کو ایوارڈ دئے جاتے ہیں۔ الحمداللہ راقم اکیلا کشمیری اس کونسل کا ممبر بلکہ گورننگ باڈی کا ممبر ہے جس کو سات ہزار سے زائد ادیب دانشور شاعر اور آرٹسٹ و فن کا ووٹ دیتے ہیں جو اس کونسل کے ممبر ہیں۔ بہت کوشش کی کہ اس عالمی کانفرنس میں کوشہ کشمیر بھی آباد ہو،تین سال قبل ہم نے کشمیر زبان و بیان پر ایک پروگرام رکھا مگر حکومت آزاد کشمیر اور کراچی میں کشمیریوں کے عدم تعاون کے باعث بری طرح ناکام ہوا، مجھے تو کوئی ایک فرد ایسا نہیں ملا جو کشمیر کی مختلف زبانوں اور تہذیبوں میں سے کسی ایک پر بات کر سکے اور نہ کوئی کشمیری ایسی علمی و ادبی کانفرنسوں میں آنے کو تیار ہے۔۔ دوسرے سال اس کا سیشن کو بادل نخواستہ کانفرنس سے ہذف کرنا پڑھا۔مبینہ طورپر کراچی میں آٹھ لاکھ کشمیری آباد ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کی اولادوں نے تو اپنی شناخت ہی ختم کر دی۔آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کے دو طبقات ہیں۔ایک غریب مزدور اور دوسرا اچھا خاصہ صاحب ثروت، دونوں اپنے اپنے مسائل میں گرفتار ہیں۔مزدور پیٹ اور صاحب ثروت،بنک بھرنے میں مشغول ہیں،کسی کو اپنی زبان، و کلچر کی سوچ ہے نہ فکر کوشش کے باوجود صرف دو افراد ممبر بنانے میں کامیاب ہوا وہ بھی پلٹ کر آرٹس کونسل نہیں آئے۔ کراچی آرٹس کونسل ایسا مقام ہے کہ جہاں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے آواز بلند کی جا سکتی ہے۔ اس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر یا کشمیر کے مسائل کو اٹھانے کا مقصد یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درد ڈھائی تین سو ایسے افراد تک پہنچانا جو شاعر ہیں، ادیب ہیں، پینٹر ہیں فن کار ہیں ان میں کتنے قلم اور برش کے ذریعے اس مسئلے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کروڑوں افراد تک پہنچا سکتے ہیں، لیکن ان کے درد کو کوئی محسوس تو کرے۔ حامد میر صاحب نے برملا انکار کیا کہ میں کشمیری نہیں ہوں حالاں کہ پہنجاب اور پہنجاب کے ڈومیسائل پر جتنی وہ تنقید کرتے ہیں کون نہ سمجھے گا کہ وہ پہنجابی نہیں ہو سکتے۔ تو پھر ان کی شناخت کیا ہے۔اب تو محمد دین تاثیر کی آل اولاد بھی نہیں جانتی کہ وہ کشمیری ہیں اور نہ ملکہ بھکراج کی اولادوں کو معلوم ہے، عطاء الحق قاسمی صاحب بھی اس معاملے میں خاموش رہتے ہیں جیسے کسی کو خبر نہ ہو کہ یہ لوگ کشمیری ہیں مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے لوگوں کی اولادیں اسلام آباد کی کرسی کے حصول کے لئے اتنی سرگرداں اور مصروف ہیں کہ دوسرا کوئی کام بھی ان کو یاد نہیں رہا۔ یہ سارے لوگ اگر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز بنیں تو ان کو کافی سہولت ہو جائے۔ جب ان کا یہ حشر ہے تو دوسروں سے کیا شکایت کریں۔مبینہ طور پر حامد میر صاحب کی بزرگ خواتین 1947 میں کشمیر سے پاکستان ہجرت کرتے ہندو سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں اغواء ہوئیں اور ایک قوم پرست جماعت کے بانیوں میں ان کے بزرگ بھی مقبول بٹ کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ برحال وہ اظہار نہ بھی کریں ہمیں خوشی ہے کہ وہ کشمیری ہیں اور اسی لیے ہمیں پسند بھی ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہو سکتی ہے کہ ان کو سری نگر سے کوئٹہ میں مظلوم زیادہ نظر آتے ہیں۔
کالم نویس جموں و کشمیر کے عوام کے دکھ درد کا ناشر ہے۔ کوئی بھی سوال یا تاثرات کے لیے واٹس اپ 0300211651 یا ای میلbashirsaddozai@gmail.com ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں