عدلیہ نے کسی کو خوش نہیں کرنا ، انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہیں،چیف جسٹس

مظفرآباد (پی آئی ڈی)چیف جسٹس آزادجمو ں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا ہے کہ عدلیہ نے کسی شخص کو خوش نہیں کرنا بلکہ بلا خوف انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہیں۔ ہم نے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور اپنے فیصلوں پر علمدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ عدلیہ کے وقار اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں وکلا کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے لیے بنچز اور وکلاء لازم وملزوم ہیں۔ وکلاء کی عزت ہمارا فرض ہے۔ وکلاء کا فرض بھی ہے کہ کیس کی تیاری کر کے آئیں۔ عدالت کی معاونت کریں تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکتے۔اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ بروقت مقدمات کا فیصلہ یقینی بنایا جائے اور اس سلسلہ میں خود کو ماتحت عدلیہ کے لئے بطور نظیر پیش کرے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مستقبل ہمیشہ غیر یقینی ہوتا ہے۔ہمیں نظام فراہمی انصاف میں معنی خیز اور مؤثر تبدیلی کے لئے بر وقت منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور مطلوبہ تبدیلیوں کو مہارت کے ساتھ لاگو کرنا ہو گا۔ الحمدللہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں کوئی بھی پرانا مقدمہ زیر کارنہیں ہے۔ 2020 اور 2021 کے چند مقدمات پنڈنگ ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس ہائی کورٹ کی جانب سے بتائے جانے والے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ میں قابل ستائش رفتار سے مقدمات کے فیصلے ہورہے ہیں اور میں اس کانفرنس کی وساطت سے فاضل چیف جسٹس ہائی کورٹ، ججز صاحبان اور ماتحت عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے منگل کے روز آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ کے زیر اہتمام ”فراہمی انصاف میں تاخیر کے اسباب“ کے عنوان کے حوالہ سے منعقدہ10ویں جو ڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جوڈیشل کانفرنس سے چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ، جج ہائی کورٹ چوہدری خالد رشید، ایڈووکیٹ جنرل خواجہ محمد مقبول وار، سیکرٹری قانون وپارلیمانی امور ارشاد احمد قریشی، وائس چیئرمین سردار طارق مسعود خان، صدر سپریم کورٹ بار محمد زبیر راجہ ایڈووکیٹ، صدر ہائی کورٹ بار ہارون ریاض مغل، رجسٹرار عدالت العالیہ راجہ راشد نسیم خان و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ اس موقع پر سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم، ججز سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان،، جسٹس محمد یونس طاہر، معزز ججز آزادکشمیر عدالت العالیہ جسٹس محمد حبیب ضیاء، جسٹس میاں محمد عارف،جسٹس سردار لیاقت حسین، جسٹس سید شاہد بہار،جسٹس محمد اعجاز خان، جسٹس چوہدری خالد رشید، سابق وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان،اپوزیشن لیڈر چوہدری محمد لطیف اکبر، وزراء حکومت خواجہ فاروق احمد، دیوان علی خان چغتائی، چوہدری محمد رشید، ممبر اسمبلی سردار جاوید ایوب، چیف الیکشن کمشنر عبدالرشید سلہریا،سینئر ممبر الیکشن کمیشن راجہ محمد فاروق نیا، چیئرمین و ممبران سروس ٹریبونل،کسٹوڈین جائیداد متروکہ، سیکرٹری صاحبان حکومت،سربراہان محکمہ جات، صدور سپریم کورٹ،ہائی کورٹ بارایسوی ایشن،ممبران سپریم کورٹ و ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن،صدور و جنرل سیکرٹری ضلعی بار ایسو سی ایشن، ڈسٹرکٹ و سیشن ججز صاحبان، ضلع قاضی صاحبان، سینئر وکلاء،خواتین وکلاء اور ہائی کورٹ کے آفیسران و سٹاف بھی موجود تھے۔ جوڈیشل کانفنرنس سے خطاب کر تے ہوئے چیف جسٹس آزادکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آزاد، غیر جانبدار اور موثر عدلیہ کی موجودگی کے بغیر مؤثر انصاف کی فراہمی ناممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں، ججوں اور عدالتی عملے کو کسی بھی قسم کے دباؤ، اثر و رسوخ، مداخلت یا پابندی کے بغیر اپنا کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ عدالتی امور کی انجام دہی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ قانون کے اطلاق کے ساتھ ساتھ پرامن اور انصاف پسند معاشرے کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہے۔عدالتی فیصلوں اور احکامات کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد قانونی افراد اور انتظامی اداروں پر منحصر ہے۔ آئین کے تحت تمام ریاستی ادارے عدالتوں کی معاونت کے پابند ہیں۔انہوں ننے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد تمام ریاستی اداروں اور افراد کی آئینی ذمہ داری ہے اور خلاف ورزی موجب سزا ہے۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کریں بلکہ ترجیحی بنیادوں پر عدلیہ کے انفراسٹرکچر میں بہتری کے لئے ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ تاخیری انصاف کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ججز خود مختار ہوں اور مؤثر طریقے سے مقدمات کا فیصلہ کرنے اور کسی بھی تاخیر کو روکنے کے قابل ہو سکیں۔ جب عدالتی نظام غیر موثر ہو جاتا ہے تو معاشرہ کے ناقص افراد قانون کی تعبیر و تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ قانون سے کوئی بھی بالا تر نھیں ہے حتیٰ کہ کتنا ہی بڑا عہدیدار یا حکومتی ہی کیوں نہ ہو سب قانون کے تابع ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کوئی شخص اس سے زیادہ کا حقدار نھیں ہے جو اسے قانون کے مطابق ملنا چاہیئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فراہمی انصاف میں جہاں عدلیہ کا بھرپور کردار ہے وہاں پر وکلاء کے کاندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز کو اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک وکیل مقدمہ عدالتوں کی صحیح معاونت نھیں کریں گے حصول انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر نھیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ فراہمی انصاف میں حائل ایک بڑی رکاوٹ عدالتوں کے قیام میں تاخیر بھی ہے۔ الحمدللہ اس سلسلہ میں چیف جسٹس ہائی کورٹ نے خصوصی دلچسپی لی ہے اور انھوں عوام کو دہلیز پر فراہمی انصاف کے تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت کے پیش نظرنئی عدالتوں کے قیام اور عملہ کی تعیناتی پر توجہ دی ہے۔چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے کہا کہ ہمیں کام کرنا آتا ہے قانو ن کی بالا دستی،انصاف کی فراہمی اور نظام کی بہتری کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔ اس موقع پر جوڈیشل کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے کہا کہ ہر ادارہ کو اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آئین اور قانون میں Separation of powers کا جو تصور دیا گیا ہے، اس کو کبھی بھی Conflict of powerکے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ یہ المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب Duel or Duet کا سوال جنم لیتا ہے اور یہ سوال یہاں پر بھی ریاست کے اندر لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے سرانجام دینے والے تمام اداروں کو Duetجوڑی کی ضرورت ہے نہ کہ Duel اور ان اختیارات کو مہذب معاشرے کے اندر اختیارات کی تقسیم کے فلسفہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ماضی ہمیشہ ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے زندہ رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصا ف کی فراہمی اور بنیادی حقوق کی حفاظت عدالتی نظام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے عدالتی نظرثانی judicial Review کا اختیار اعلیٰ عدالتیں استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو موثر بنانے کے لیے قانون کی حکمرانی، شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی منشاء کے تحت کشمیری عوام کے مسلمہ حق خودارادیت کے حصول تک ہم ایک عارضی آئینی ڈھانچے میں کام کر رہے ہیں۔ ان کم وبیش7عشروں پر محیط عرصہ میں آزادکشمیر کی اعلی عدلیہ نیت حتی المقدور انصاف رسانی کے لیے کاوشیں کی ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں انتظامیہ کو نظام حکومت چلانے کی غرض سے آئینی قواعد AJ&K Rules of Business 1985نافذ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتظامی انصاف کیء فراہمی میں رولز آف بزنس پر من وعن عمل کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے انتظامی امور کی انجام دہی میں ان قواعد سے دانستہ یا نادانستہ پہلو تہی کی جاتی ہے۔ نتیجتا ایسا انتظامی حکمنامہ عدالت کے روبرو آ جاتا ہے۔ خوعش قسمتی سے کانفرنس کے شرکاء میں آزادکشمیر کے Stake Holdersاور نمایا ں شخصیات تشریف فرما ہیں جو کسی نہ کسی طور اقتدار و اختیار سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں۔ اس لیے ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بات کرنا برملا محسوس ہوتا ہے کہ بادی النظر میں کم وبیش ہر انتظامی حکمنامہ کے خلاف رٹ دائر ہوتی ہے۔ چاہے الیکشن کمیشن سے متعلقہ کوئی بات ہو، چاہے تقریوں میں بے ضابطگی ہو یا کوئی دیگر انتظامی نوعیت اور مفاد عامہ کا مسئلہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ شہریو ں کے تحفظ شدہ بنیادی آئینی حقوق محض زبانی جمع خرچ کے لییے آئین میں درج نہ ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کروانا اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لیے اور نا انصافی کے Sourceیا غیر قانونی حکمنامہ جاری کرنے والے ذمہ دار تک پہنچنے کے لیے عدالت کے ہاتھ لمبے ہیں۔ مثلا اگر غیر قانونی حکمنامے کی روشنی میں کسی کو ملازمت ملی ہے تو مخص حکمنامہ کو کالعدم کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ غیر قانونی حکمنامہ جاری کرنے والے کے خلاف تادیبی کاروائی اور سخت ترین سزا بھی تقاضائے انصاف ہے۔ انہوں نے کہ اکہ فاضل چیف جسٹس صاحب آزادکشمیر کی راہنمائی میں آزادکشمیر عدلیہ نے مختصر عرصہ میں اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ جہاں فراہمی انصاف میں تاخیر نقصان دہ ہے وہیں انصاف رسانی میں عجلت بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ اس لیے توازن و اعتدال کے ساتھ معاملات کو نبٹا نا ہی قرین انصاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب وقت میں انصاف اور قانون کی حکمرانی ایک ایسا goal ہے جس کے حصول کے لیے ریاست کی تینوں آرگنز کی ہمہ جہت اور ہم آہنگی سے کوششیں درکار ہیں۔ اسی طرح فراہمی انصاف میں وکلاء کمیونٹی کا بھی ایک نمایا ں کردار ہے۔ ہم pendency کے لفظ کو اپنی ڈکشنری سے نکالنے کی سعی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2022میں میں نے اور ججز صاحبان نے موسم گرما کی تعطیلات سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کیا اور اسی سال گرمائی تعطیلات میں سرکٹ بیچ راولاکوٹ موسم گرما میں فنکشنل رہا۔ اسی طرح 2022کے آخر میں ہونے والی سرمائی تعطیلات میں بھی عدالت العالیہ فنکشنل رہی۔ اسی طرح تعطیلات کسی طور بھی فراہمی انصاف میں رکاوٹ کا باعث نہ بنتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سال 2023کو بھی Anti Delay Yearمنانے کا اعادہ کیا ہے اور مہمان خصوصی اس کو اس وقت تک مناتے رہیں گے جب تک ہم Current Year تک نہیں پہنچ جاتے۔ اس ضمن میں اپنے ساتھی ججز صاحبان کے تعاون، ان کی انتھک محنت اور کاوشوں اور اپنے ججز صاحبان کے سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پرانے مقدمات کو فی الفور یکسو کیا۔ قبل ازیں رجسٹرار آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ راشد نسیم نے آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ کے ہیڈکوارٹر، ماتحت عدالت ہا، میر پور،کوٹلی اور راولاکوٹ بینچز کی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ 31دسمبر2022تک ہیڈ کوارٹر، سرکٹ بینچز میرپور،کوٹلی، راولاکوٹ اور ماتحت عدالت ہاء میں 105249کیسز زیر کار تھے۔ جن میں سے 56347کیسز یکسو کر دیے گئے جبکہ 48853کیسز زیر کار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ زائد 5سال کے 7243مقدمات زیر کار تھے جن میں سے 3269مقدمات یکسو ہوئے جبکہ 3974مقدمات زیر کار ہیں۔ آخر میں چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان اور چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے شرکاء میں شیلڈز بھی تقسیم کیں۔ چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان کو چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے بھی شیلڈ پیش کی۔
٭٭٭٭٭٭

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں