!!!محبت وتعظیم حسینؓ بخشیش کی سند ہے!!!۔۔ محمد حنیف تبسم

امامِ عالی مقام، نواسہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، شہزادہِ حیدرِ کرار رضی اللّٰہ عنہ، جگر گوشہ خاتون جنت حضرتِ بتول علیہا السلام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری اور اپ کی لازوال قربانی بالخصوص فکر وذکر حسین نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ضررورت ہے اور یہی محبت حسینؓ بخشیش کی سند ہوگی۔
بارگاہ نواسۂ رسول،جگرگوشۂ بتول،راکب دوش مصطفی ﷺ
حضرت سیّدنا امام عالی مقام امام حُسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی کربلا میں اپنے جانثاروں کے ہمراہ عظیم قربانی نے قیامت تک انے والی نسلوں کو پیغام دے دیا کہ باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام حسینؓ ہے بلکہ یوں تحر یر کیا جاۓ حسینؓ تھاحسینؓ ہے اور حسینؓ ہمیشہ رہے گا امام عالی مقام امام حسینؓ کربلا آسمانِ دہر پر چمکتے ہوے ایسا خورشیدِ درخشاں ہیں جو محبانِ محمد و آلِ محمد کے لیے تابانیٔ ایمان ہے حق و باطل کے اس عظیم ترین معرکے میں نواسۂ رسولؐ نے قربانی کی لا زوال مثالیں پیش کرکے دینِ اسلام کو بقائے دوام بخشی۔ امام حسینؓ کو محسنِ انسانیت اور امامِ مظلوم کا وہ مرتبہ حاصل ہے جو صرف ان کا ہی خاصہ ہے۔ جہل اور گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو انصاف اور صداقت سے مستفید کرنے اور شریعتِ محمدی کے اطلاق و احیا کے لیے امام حسینؓ نے قیام کیا۔ آج اگر دنیا میں دینِ اسلام اپنے نظامِ فکر، فلسفۂ قرآن و حدیث اور اساسِ عدل کے ساتھ موجود ہے تو اس کے لیے صرف امام حسینؓ کو محافظِ اسلام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے امام کے قیام و قربانی نہ صرف اسلامی دنیا میں ایک مینارۂ نور کی حیثیت حاصل ہے بلکہ دنیا بھر کے اہل مذاہب امام حسینؓ کے عزم و ایثار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کربلا میں امام کی قربانیاں ان کے وارثِ رسولؐ و علیؑ ہونے کے باعث اور آغوشِ سیدنافاطمہؑ کے پروردہ ہونے کے سبب حق و باطل کے درمیان ایک امتیاز کا استعارہ ہیں۔
واقعۂ کربلا سے قیامت تک امام حسینؓ کو خراجِ عقیدت اور مدحت و مودت کے نذرانے پیش کیے جاتے رہیں گے۔ دنیا بھر کی زبانوں اور ادب میں امام حسینؓ کو اور واقعہ کربلا کو نمایاں انداز میں جگہ دی گئی ہے۔
سانحۂ کربلا معلی بنیادی طور پرسیّدنا امام حسین علیہ السلام،اہل بیت اطہار اور ساتھیوں کی یزیدی فوجیوں کے ہاتھوں بے مثال دلیرانہ شہادت ، اور خانوادۂ رسول ﷺ کی پاک، با حوصلہ اور صابر بیبیوں اور بچیوں کے بےیارو مددگار رہ جانے کی قیمت پر ، سیّد نا حضرت امام حسیؑن کا یزید کی بیعت اطاعت سے انکار یہ درس دیتا ہے کے حق پر ہونے کے لیے افرادی قوت نہیں دیکھی جاتی ۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ ” یزید کی بیعت اطاعت کر لینے میں کیا چیز مانع تھی، کہ سیّدنا امام حسین علیہ السلام نے کسی بھی قیمت پر یزید کی بیعت اطاعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور پھر مصائب و آلام اور خون کے سمندر سے گزر کر اپنے فیصلے پر بے مثال جراءت، عزم صمیم، اور شجاعت کے ساتھ اس طرح پورا رہ کر دکھایا کہ قیامت تک اس کی مثال پیش کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔”
سیدنا امام حسینؓ مخدومہ سیدنا فاطمہ زہرا اور مولا
علی ابن ابی طالب کےبیٹے، اور نواسہ رسول امام حسینؓ کی ولادت با سعادت3 شعبان 4ھ، بمطابق 8 جنوری 626ءمدینہ منورہ اور وصال10 محرم 61ھ، بمطابق 10 اكتوبر 680ءكربلا، عراق کے مقام پر ہوا
اپ کے والد سیدنا مولا علی ابن ابی طالب والدہ ماجدہ مخدومہ کاہنات سیدنا فاطمہ الزہراء ہیں امام حسینؓ کےبھائی بہنوں میں حسن بن علی، زینب بنت علی، عمر بن التغلبيہ،ابو بكر بن علی، محمد بن حنفیہ،عثمان بن علی،عباس بن علی،ہیں۔ اپ کی ازواج مطہرات میں شاہ زنان بنت يزدجرد،لیلیٰ بنت عروہ بن مسعود ثقفی،رباب بنت امرؤ القیس بن عدی،ام اسحاق بنت طلحہ ہیں امام حسینؓ کی اولاد میں سیدنا علی اکبر،علی اوسط
علی اصغر،جعفر اور بیٹوں میں
سیدنا فاطمہ بنت حسین بن علی،سکینہ بنت حسین،رقیہ بنت حسین،خولہ بنت حسین
صفیہ بنت حسین ہیں۔
اپ کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ یعنی ‘حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کر۔ حسین میرے الْأَسْبَاطِ میں سے ایک سِبْطٌ ہے
اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے رسول کریم کو ولادت کے دوران میں آپ کی شہادت کی خبر دے دی تھی رسول کریم نے آپ کا نام حسین رکھا جو اس سے قبل کسی کا نام نامی نہ تھا
رسول اللہ حسن و حسین بن علی کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے امام حسینؑ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں امام حسینؓ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات بھی نقل ہوئی ہیں انہی میں سے یہ روایات بھی ہیں؛
حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں سیدنا حسین کی اپنے نانا رسول کریم سے بےپناہ عقیدت و محبت تھی ۔ایک مرتبہ رسول کریم نماز کی امامت فرما رہے تھے کہ حسینؓ اپ کی پشت مبارک پر سوار ہوگے روای لکھتا ہے کے رسول کریم نے سجدہ کو طویل کیا اور سجدے میں اکہتر مرتبہ سبحان ربی یالاعلی پڑھا اور مولا حسین نے اسی محبت و عقیدت سے کربلا میں اپنے 72 جانثاروں کے ہمراہ اپنے نانا کے دین کی خاطر سجدے میں گردن کٹا کر ثابت کر دیا کے نانا کے دین کے اصل وارث اپ ہی ہیں۔
مولا حسین کی کربلا میں مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف قربانی حق وسچ کی علامت ہے
پوری دینا اور تاریخ میں متعدد شخصیات نے ظلم کے خلاف حسینؓ کے موقف کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ وہ ظالم اور ناانصافی کے خلاف اپنے لڑائی لڑ رہے تھے۔ہمشیرۂ امام حسینؓ سیدناحضرت زینبؑ نے
سیدنا حسین وخانوادۂ رسول و واقعۂ کربلا کو اپنے تاریخی خطبہ میں دین اسلام کے لیے ان عظیم قربانیوں کے مقاصداور فکرِ حسینی کے فروغ کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔
ادب میں واقعۂ کربلا اور قربانیِ شبیرؑ کے موضوع پر قدیم زمانے سے شعر و ادب میں واضح طور پر فلسفۂ حق و باطل کو بیان کیا گیا ہے۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے نواسۂ رسولؐ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ دانش وروں اور شاعروں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ اردو شعر و نثر میں کربلا کو حق و باطل کا ایک اہم استعارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہمیشہ کے لیے حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہے کو تحریر کیا۔
امام حسینؑ کا مقصد توحید، رسالت، امامت، شریعت،انسانی مساوات، انصاف اور عظمتِ انسان کی حفاظت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ حق کو مٹانے آئے تھے وہی صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اورامام حق شہادت کے درجے سے فیض یاب ہو کر ہمیشہ کے لیے غالب قرار پائے جس کا ثبوت سرکارِ دوعالم کی نعت، حضرت مولا علیؑ کی منقبت اور امام حسینؑ کی زات اقدس پر درو وسلام ہے۔
جس طرح ایک ذاتِ محمدؐ ہے بےمثل ومثال ہے بلکہ اسی طرح اپ کے خانوادے میں سیدنا علیؑ کی شجاعت اور مولا حسین کی اپنے نانا کے دین کے لیے قربانی کی نظیر نہیں ملتی افاقی شاعر بیدمؔ شاہ وارثی نے خراج عقیدت کے طور پر کہا
بیدمؔ یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات خیرالنساؑ، حسینؑ و حسنؑ، مصطفیؐ، علیؑ
حضرت اقبال کہتے ہیں
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
قیصر بارہوی لکھتے ہین
دیکھو تو سلسلہ ادبِ مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ قبضہ حسین کا
ظفر اقبال خراج عقیدت کے طور پر کہتے ہیں
تیغِ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہوگئے
ایسی مثال پیش کی، آپ مثال ہوگئے
ارشد محمود ناشاد
تُو نے وہ کام کیا جس کی نہیں کوئی نظیر
فاتحِ کرب و بلا تجھ کو زمانوں کا سلام
سبھی زمانوں میں اس کی اذان بولتی ہے
جہاں جہاں ہے صداقت وہاں وہاں ہے حسینؑ

اختر رضا سلیمی کہتے ہیں
یزید تُو نے تو کچھ دیر زندگانی کی
مرے حسینؑ نے صدیوں پہ حکمرانی کی

کربلا کی تعلیمِ صبر و جرأت کی روشنی سے زندگی کو منور کرکے انسان قربتِ الٰہی کا مستحق بن سکتا ہے۔ شعرا نے کربلائی روح کی دعا بھی کی اور زمینِ کربلا کو باعثِ برکت و سرخروئی بھی قرار دیا۔وسیلۂ شاہِ کربلا اور خاکِ شفا کی بدولت ہمارے دونوں جہان کامرانی کا عظیم نمونہ ہوں گے۔ خطۂ کربلا کو تاریخی حیثیت حاصل ہے اور امامؑ نے اسے اپنے قیام کے لیے خرید کر خود پسند فرمایا۔ اس زمین میں امامِ مظلوم اور ان کے وفادار کربلا میں امام حسینؑ کے جانثاروں کا کردار مثالی اور انتہائی عظیم ہے۔ انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ رضائے خدا کے لیے پیش کیا اور باطل کے سامنے جھُکنے کے بجائے جامِ شہادت نوش کرنا بہتر سمجھا۔ خدا و پیغبرِ خدا کے سامنے یہ لوگ ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوئے۔ امامؑ نے ان کے لیے جنت کی بشارت بھی دی۔
امام حسینؑ کے سجدۂ آخر کو بھی شعرائے خوش کلام نے انتہائی خوبصورت طور سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس فلسفے کو بیان کیا جس کے تحت امامؑ نے اپنی قربانیاں پیش کرنے کے بعد اپنا سر سجدۂ شکر میں کٹوا دیا۔ امام اپنے والدِ بزرگوار مولا علیؑ کی طرح یہی فرما رہے تھے کہ ربِ کعبہ کی قسم میں اس عظیم امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ امامؑ کے اس سجدے کی بدولت دینِ خدا کو بقا ملی۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللہ اک سجدۂ شبیری
(وقار انبالوی)
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(اقبال)
یزید نےسیدنا امام حسینؑ سے بیعت کا سوال کیا تھا لیکن کبھی حق بھی باطل کے سامنے جھکتا ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ حق پرست بیعتِ باطل کے بجائے شہادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ انکارِبیعت کو بھی اردو شاعری میں ایک عظیم تلازمۂ صداقت کی حیثیت حاصل ہے۔
خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے
( احمد فراز)
سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؑ کا ہے
(افتخار عارف)
کسی سے اب کوئی بیعت طلب نہیں کرتا
کہ اہلِ تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے
(گلزار بخاری)
یونہی تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا
(عباس تابشؔ)
واقعۂ کربلا کا اثر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں پر بھی ہوا۔ امامؑ کی شخصیت کو سبھی نے سلام پیش کیا۔
غیر مسلم دانش وروں اور شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں امام حسینؑ کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا اور ان کی قربانی کو تاریخ کی اہم ترین منزل قرار دیا۔ غیر مسلم شعرا میں ہندو اور سکھ شعرا نے بطورِ خاص ایسے ایسے مضامین پیش کیے جو بارگاہِ امام میں مقبول و منظور محسوس ہوتے ہیں۔ ان غیر مسلم شاعروں کی شاعری جن سے ان کی ذاتِ امامؑ اور کربلا کے فلسفے سے گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان شاعروں نے تخیل و فکر کی پرواز سے منفرد موضوعات کو واقعۂ کربلا کے آئینے میں بیان کیا۔
انسانیت حسین ترے دم کے ساتھ ہے
ماتھرؔ بھی اے حسین ترے غم کے ساتھ ہے
مسلمانوں کا منشائے عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبطِ نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
پرائے دیس میں اپنوں کی سی خو ڈھونڈ لیتے ہیں
علی والے علی والوں کی خوشبو ڈھونڈ لیتے ہیں
مسلمانوں کی نظروں کو نہ جانے کیا ہوا ماتھر
فضائل میرے مولا کے تو ہندو ڈھونڈ لیتے ہیں
غم ہے مری فطرت میں تو غم کرتا ہوں ماتھرؔ
ہندو ہوں مگر دشمنِ شبیرؑ نہی ہوں
(منشی دیشو پرشاد ماتھر)
خمارؔ اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا
غمِ حسینؑ پہ ہم انحصار کرتے ہیں
(ست نام سنگھ خمار)
یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی
آنکھوں میں آنسوئوں کی سبیلیں لگا گئی
کرب و بلا میں دیکھیے شبیرؑ کی ’’نہیں ‘‘
ہر دور کے یزید کو جڑ ے مٹا گئی
(سورج سنگھ سورج)
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی
(رام پرکاش ساحر)
رکھتے ہیں جو شبیر سے کاوش پنڈت
ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے
(پنڈت ایسری پرشاد دہلوی)
جے سنگھ پناہ مانگے گی مجھ سے نرگ کی آگ
ہندو تو ہوں مگر ہوں میں شیدا حسینؑ کا
(جے سنگھ )
حسین ابنِ علی ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا
دیا سر آپ نے راہِ خدا میں
کِیا دینِ نبی کو دین اپنا
ولائے سبطِ پیغمبر ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
(سرکش پرشاد)
حسینؑ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسین شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
(سنت درشن سنگھ)
گلشنِ صدق و صفا کا لالۂ رنگین حسین
شمعِ عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسین
بادۂ ہستی کا ہستی سے تری ہے کیف و کم
اٹھ نہیں سکتا ترے آگے سرِ لوح و قلم
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
رہے گا رنج زمانے میں یادگار ترا
وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا
(چکبست)
لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقین کہ منزل کو پا لیا میں نے
خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے
(چرن سنگھ چرن)
ہے آج بھی زمانے میں چرچا حسینؑ کا
چلتا ہے ملک ملک میں سِکہ حسینؑ کا
بھارت میں گر وہ آتا تو بھگوان کہتے ہم
ہر ہندو نام پوجا میں جپتا حسین ؑ کا
مذہب کی کوئی بات نہیں دل کی بات ہے
ہر حق پرست دل سے ہے شیدا حسینؑ کا
مسلم تو پڑھتے آئے ہیں کلمہ رسولؐ کا
ہم ہندوئوں نے پڑھ لیا کلمہ حسینؑ کا
ساحل سے سر پٹختی ہیں پیاسوں کی یاد میں
لے لے کے نام گنگا و جمنا حسینؑ کا
اس میں نہیں کلام کہ ہم بُت پرست ہیں
آنکھوں سے اپنی چومیں گے روضہ حسینؑ کا
(دیوی روپ کماری)
کائنات کے تمام سمندر روشنائی بن جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں پھر بھی محمد و آلِ محمد جمال و جلال الٰہی کے ایسے مظاہر ہیں کہ ان کے مکمل فضائل و مناقب رقم نہیں کیے جا سکتے۔ اس مختصر سے مضمون میں چند اشعار کے ذریعے اس رجحان کی طرف اشارا کیا گیا ہے جو شعرائے اردو کے شعری شعور کا خاصہ رہا ہے۔ کربلا اور شاہِ کربلا کا ذکر شاعروں کی عقیدت اور صداقت کا عظیم اظہار ہے۔ ازل سے ابد تک ذکرِ حسین جاری و ساری رہے گا اور شاعر اپنے کلام میں امامِ مظلومؑ کے ذکر سے تخیل کے رنگا رنگ پھول کھلاتے رہیں گے۔
محسن نقوی نے اپنے اشعار میں خراج عقیدت کے طور پر لکھا
میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہوگا
غمِ حسین زیادہ ہے زندگی کم ہے
جن کے سجدوں سے منور ہے جبینِ آفتاب
میرے حرفوں کی عبادت ان خدا والوں کے نام
میری شہ رگ کا لہو، نذرِ شہیدانِ وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام
محرم میں بلحضوص کربلا کے جانثاروں کو سلام پیش کرتے ہوے ذکر حسین و شھداء کربلا کی مساجد وگھروں میں محافل کا انعقاد کیجئے اور بالخصوص بچوں کو ان محافل کا حصہ بنائیے تاکہ ھماری نسلوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کی آل واولاد اور مولا حسین کی دلوں میں مزید محبت پیدا ھو سکےہر کوی یہ کہے کہ
محبت حسین بخشیش کی سند ہے

حسین منی و انا من الحسین
میرے ایمان کا جزو ہے
کربلا سے انتہائی محبت و احترام کا اظہار اس سال بھی لاکھوں کروڑوں انسان کریں گے
اللّٰہ سے دعا ہے سب کی عقیدت مندی قبول فرمائے ۔
محتاجِ زر نہیں ہے محبت حسین کی
اظہارِ عاشقی کا قرینہ ہے محبت حسین
ہر زمانہ میرے حسین کا ہے جس کی خاطر یہ کاہنات بنی ایسا نانا میرے حسین کا ہے.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں