مکالمے کی طرف لوٹ آئیں… ارشاد محمود

ریاست سے زیادہ طاقت ورکوئی نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔دنیا میں جو بھی گروہ ریاست سے ٹکرایا اس کا انجام برا ہوا۔ عمومی طور پر میچور ریاستیں طاقت کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ طاقت کا استعمال شروع کرنا آسان لیکن اس کے دور رس اثرات اور مضمرات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتاہے۔چنانچہ سیاسیات کے ہر ماہر کا مشورہ ہے کہ مکالمہ کے ذریعے ناراض گروہوں اور حکومت کے درمیان لواور دو کی بنیاد پر مسائل حل کیے جائیں۔اس کے برعکس پاکستان میں آج کل حکومت اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں نظام انصاف کمزور ہو۔ پارلیمنٹ شہریوں کے حقوق کی محافظ ہونے کے بجائے طاقت وروں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی لاٹھی ہو۔ وہاںمکالمے، ، اعتدال اور مخالف نقطہ نظر کے احترام کا بھاشن دینا عبث ہے۔ اس کے باوصف اس موضوع پر مسلسل گفتگو ہونی چاہیے تاکہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے۔
کہتے ہیں کہ استدلال کو استدلال ہی کی طاقت سے شکست دی جاسکتی ہے نہ کہ خوف وہراس پیدا کرکے۔اختلافی آوازوں کا مقابلہ متبادل اور بہترنقطہ نظر پیش کرکے کیا جاسکتا ہے۔تصادم کا راستہ ملکوں اور قوموں کو دیمک کی اندر ہی اند رچاٹ کر کھوکھلا کردیتاہے۔مسلسل عدم استحکام بسااوقات غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے لیے فضا سازگار بنا دیتا ہے جو ناراض گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔افسوس!حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔اب حکومت ریاستی وسائل اور انتظامی قوت کا استعمال کرکے پی ٹی آئی کو شکست وریخت کا شکار کررہی ہے۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے شہریوں کو بے بس کیا جاسکتاہے۔ ان کی زبانوں پر تلا لگایا جاسکتاہے۔ ان کا سر جھکایا جاسکتاہے۔ انہیں وقتی طور پر غیر متعلق بھی کیا جاسکتاہے لیکن ان کے دلوں اور دماغوں کو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔ موقع ملتے ہی وہ اپنے دل کا غبار نکال لیتے ہیں۔قومی دھارے سے کٹ جانے والا طبقہ ہمیشہ بے قرار اور ناآسودہ رہتاہے۔
پاکستان میں جو کچھ ہوا اور جو ہورہاہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔گزشتہ ستر برسوں سے بیشتر حکومتیں اسی طرح من مانی کرتی رہی ہیں۔ آئین شکنی ہوتی رہی۔ عدلیہ کے فیصلوں کی پامالی اور ججوں کی ہتک کی جاتی رہی۔ بلکہ بعض ایک جماعت نے اپنے دور حکومت میں سپریم کورٹ پر حملہ تک بھی کرادیاتھا۔سیاستدان کو ہانک کر ایک جماعت سے دوسری جماعت میں بھی شامل کیا جاتارہا۔ کنگز پارٹی کو الیکشن میں فتح سے ہمکنار کیا جاتارہا لیکن ان تمام حربوں کو کبھی بھی لوگوں نے دل سے قبول نہیں کیا۔نہ ہی آئندہ کریں گے۔ اس مرتبہ مختلف صرف یہ ہے کہ چوبیس کروڑ عوام جن میں ساٹھ فی صد کے لگ بھگ نوجوان ہیں،پاکستان کو درپیش سیاسی بحران کا براہ راست مشاہدہ کررہے ہیں۔ ایک ایک لمحے ریکارڈ ہورہاہے بلکہ لائیو سٹریم چل رہاہے۔پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ وابستہ کروڑوں لوگوں کی اکثریت تعلیم یافتہ، سماجی طور پر متحرک اورمعاشی طور پر مضبوط ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اور لیڈر یکساں طور پر پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان اور رانا ثنا اللہ کے تمام تر الزامات کے باوجود گزشتہ کئی برسوں کے مطالعہ اور مشاہدے کے دوران کبھی یہ گمان تک نہ گزرا کہ یہ لوگ ملک سے عناد رکھتے ہیںیا ان کا کوئی منفی ایجنڈا بھی ہوسکتاہے۔بلکہ پی ٹی آئی کی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ایک کٹرقوم پرست جماعت کی شناخت بن گئی تھی۔
پی ٹی آئی کومصر کی اخوان المسلمین کی طرح دیوار کے ساتھ لگایا جا چکا ہے۔ اس کے لیڈروں پر دباؤ ڈال کر پارٹی سے رائیں جدا کرائی جانے کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتاہے۔ اس انداز سیاست کا بھی ردعمل ہوگا۔
بظاہر ایسا لگتاہے کہ ریاست کو لمبے عرصے تک اپنے ہی لوگ سے الجھے رہنا پڑے گا۔ یہ تلخی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی۔ بیرون ملک ایک کروڑ پاکستانی بھی باہم گتھم گھتا ہوجائیں گے۔ آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ کی پارلیمنٹس میں پاکستان کے حوالے سے بحثیں شروع ہوچکی ہے۔بڑے موثر مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کے ادارے بھی پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیمیں بھی بیانات جاری کررہی ہیں۔ خاص طور پر عمران ریاض کو زندہ سلامت رہا نہ کیا جاسکا تو پاکستان کو عالمی سطح پر سخت خفت اٹھانا پڑے گی۔
دوسری جانب عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان سازگار تعلقات استوار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں رگڑنے اور معاشرے کے کمزور طبقات پر کمر توڑ مالی بوجھ ڈالنے کے باوجود حکومت آئی ایم ایف سے ایک دھیلے کی مالی امدا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ لے دیے کر دوبارہ چین سے بھاری شرح سود پر قرض حاصل کرنے کی ازسرنو کوشش کی جارہی ہے۔حال ہی میںایران کے ساتھ بجلی کی خریداری اور دیگرمعاہدات کیے گئے ہیں۔ ایران اور چین پر انحصار سے عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ پاکستان کے ساتھ مزید جارہانہ ہونے کا خدشہ ہے۔نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف چین کے اثرات کو دنیا میں محدود کرنا ہے۔ اندیشہ ہے کہ داخلی سیاسی بحران کے دوران ہی کئی امریکہ اور چین کے درمیان جاری رسہ کشی کا میدان پاکستان تک نہ پھیل جائے۔
افسوس ! ملک کے اندر ایسی غیر متنازعہ شخصیات دستیاب نہیں جو سیاسی طور پر متحارب گروہوں کے درمیان پل کا کردارا دا کرسکتیںیا ثالثی کراتیں۔سینئر صحافی، منصفین، سابق سفارت کار اور ریٹائرڈجنرل سب کونوں کدروں میں دبک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی زیر عتاب ہے اس پر کچھ بغلیں بجارہے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میںان کے ساتھ برا سلوک کیا تھا لہٰذا آج اس پر کوہ غم ٹوٹا ہے تو ہمیں کیا غم ہے۔ اصولی اور اخلاقی طور پر یہ رویہ درست نہیں۔سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو دوٹوک پوزیشن لینی چاہیے کہ جوافراد قومی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں ان کو قانون کے مطابق سزادی جائے۔البتہ سیاسی لیڈروں اور کارکنان پر تشدد کیا جائے اور نہ ان سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جائیں۔ بلاجواز گرفتاریوںکا سلسلہ روکا جائے اور زیر حراست افراد کے خلاف اگر کوئی سنگین جرم نہیں تو انہیں رہاکردیاجائے۔ پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں کی طرح سیاسی سرگرمیاں کرنے دی جائیں۔ بصورت دیگر اگلا الیکشن متنازعہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں ہوگی۔یہ ویسا ہی الیکشن ہوگا جیسے صدام حسین کے عراق میں صدارتی الیکشن ہوتاتھا۔
جہانگیر ترین کی طرح کے لوگوں کو اکٹھے کرکے نئی جماعت کھڑی کرانے اور پھر اس میں لوگوں کو ہانکنے سے گریز کیا جائے۔ اس جماعت کا انجام بھی قاف لیگ یا جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ سے مختلف نہ ہوگا۔جماعتیں فطری طور پر پروان چڑھتی ہیں۔ ان کی اٹھان نظریہ پر ہونی چاہیں نہ کہ الیکشن کے سیزن میں چند مفاد پرست سرکاری سرپرستی میں اکٹھے ہوں اور الیکٹ ایبلز کی مدد سے ایک پارٹی کھڑی کرکےشراکت اقتدار کا مطالبہ کرنے لگیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں