10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن…نجیب الغفورخان

انسانی حقوق کا عالمی دن اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر انسانی وقار برقرار رکھنے اور لوگوں میں انسانوں کے حقوق کے حوالہ سے شعور اجاگر کرنے کیلئے ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد انسانوں کے حقوق کو بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب اور زبان تسلیم کرنا، انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام، عوام میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا اور خصوصاً خواتین اور بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر1948ء کو اپنی قرار داد317میں انسانی حقوق کے عالمی ڈکلیئریشن کی منظوری دی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو انسانی حقوق کے دن کے طور پر منانے کا پہلی بار اہتمام تمام ممبر اور دلچسپی رکھنے والے ممالک کو 1950میں مدعو کر کے کیا۔ عالمی ادارے کی طرف سے انسانی حقوق کو یوں بیان کیا گیا ہے:”تمام افراد اور اقوام کے لئے ایک جیسا معیار قائم کیا جائے“۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ایک ابتدائیہ اور تیس آرٹیکلز پر مشتمل ہے،جس میں آزادء اظہار، کسی جگہ جمع ہونے،آمد ورفت اور مذہبی آزادی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انسا نی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سیمینارز، کانفر نسز اور پروگرامات کا اہتمام کر کے اس دن کی اہمیت کا اجاگر کیا جا تا ہے۔ تا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے کسی بھی جگہ ہونے والی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔ آج جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی مسلسل دھجیاں اڑا رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ واحد خطہ ہے۔جس کے اندر ہندوستانی قابض فورسز کی طرف سے ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں نہ تو کسی ادارے کو نظر آرہی ہیں اور نہ ہی کسی انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے اس کا بھر پور طریقے سے نوٹس لیاہے۔ بھارتی قابض فورسز گزشتہ 75 برسوں سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں بلا لحاظ عمر و جنس کشمیریوں کو بے رحمانہ طریقے سے قتل و گرفتار کر رہی ہیں جبکہ انہیں تشدد اور تذلیل کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ 5اگست 2019ء مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں میں مذیدشدت آئی، جس کے مقبوضہ وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہوگئی۔ وادی میں خوف کے سائے آج بھی برقرار ہیں اور قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ وادی میں حالات تاحال کشیدہ ہیں جبکہ وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ مگر پھر بھی مودی سرکار کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے میں ناکام ہے اور وادی میں قابض بھارتی فوج کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔وادی میں موبائل فون،انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں اور وادی میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت برقرارہے۔مقبو ضہ کشمیر میں کشمیریوں کو اُن کا بنیادی اور پیدائشی حق مانگنے کی پا داش میں بھارتی قابض فورسز کی طرف سے ظلم و جبر اور بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ معصوم کشمیریوں پر ظلم و بر بریت کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ -10لاکھ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہندوستانی فورسز معصوم کشمیریوں کا جینا دو بھر کئے ہوئے ہے۔ بچے،بوڑھے،جوان،مرد و خواتین غرض کوئی بھی بھارتی جارحیت سے نہیں بچ سکا۔بچوں پر ایسے بہیمانہ تشدد کئے گئے اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ 18ماہ کی حبہ نثار کو پیلٹ گنز کا نشانہ بنا کر زخمی کیا گیا۔ اس نومولود بچی پر نہ تو عالمی ضمیر جاگا اور نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں حرکت میں آئیں۔ کالے قوانین کے تحت کشمیری نوجوانوں کو اغواء کر کے جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا جا تا ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے بنائے جا نے والے کالے قوانین اور پالیسیاں غیر انسانی ہیں۔یہی وہ کالے قوانین ہیں جو معصوم اور نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم،ماورائے عدالت قتل،اغواء عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم کے لئے بھارت کو جواز مہیا کرتے ہیں۔بے گناہ کشمیریوں پر بھارت کے جرائم پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ ایک طویل خاموشی کے بعد ایک خوش آئند قدم تھا۔رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ہندوستان مقبو ضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہاہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی یہی مطالبہ دہرایا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ قراردادوں کے تحت حق خودارادیت دیا جائے۔مگر عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس رپورٹ پر عمل کروانے اور بھارت کو انسانی حقوق کی پامالیاں رکوانے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں جنوری 1989 سے اب تک 96ہزار1 سو60 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے جن میں سے 7 ہزار 2 سو80 کو زیر حراست شہید کیا گیا، ان شہادتوں کے نتیجے میں 22 ہزار 9 سو53 خواتین بیوہ اور 1 لاکھ 7 ہزار 9 سو بچے یتیم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 11 ہزار 2 سو 56 خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا اور 1 لاکھ 10 ہزار 5 سو رہائشی مکانات اور دیگرعمارتوں کو نقصان پہنچایا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے اس عرصے میں 9 ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ بھی کیا ہے۔ بھارتی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے چلائے گئے پیلٹ چھروں سے اسکول جانے والے ہزاروں کشمیری لڑکے اور اور لڑکیاں زخمی ہوئے جبکہ 19 ماہ کی حبہ جان، دس سالہ آصف احمد شیخ، سولہ سالہ عاقب ظہور، سترہ سالہ الفت حمید، سترہ سالہ بلال احمد بٹ، انشاء مشتاق، انیس سالہ طارق احمد گوجری اور انیس سالہ فیضان اشرف تانترے سمیت درجنوں بچے پیلٹ لگنے سے مکمل طور پر اپنی بصارت سے محروم ہو گئے۔رپورٹ کے مطابق محاصرے اور تلاشی کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے کشمیریوں کی زندگی بری طرح متاثر ہے اور بھارتی فوج کے محاصروں کی وجہ سے مقبوضہ علاقے کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز محمد اکبر، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد ڈار، امیر حمزہ، محمد یوسف میر، محمد رفیق گنائی، فیروز احمد خان، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ظہور وٹالی، غلام محمد بٹ، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، محمد یوسف فلاحی، ظہور احمد بٹ، انجینئر رشید، حیات احمد بٹ، انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز اور صحافی آصف سلطان سمیت حریت رہنماؤں، کارکنوں، نوجوانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کالے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقے اور بھارت کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ قابض انتظامیہ نے حریت فورم کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کو 5 اگست 2019 سے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا رہی حتیٰ کہ انہیں جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ ادا کرنے اور وہاں لوگوں سے خطاب کرنے سے بھی روکا جا رہاہے۔ کالے قوانین کو معصوم کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق(او ایچ سی ایچ آر) کے دفتر نے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے سرکردہ محافظ خرم پرویز کی کالے قانون”یو اے پی اے“ کے تحت گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکی رہائی پر زور دیا تھا۔بھارت کی انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے ایک سرکردہ رضاکار خرم پرویز کو ان کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارنے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت نے حق خودارادیت کے لئے کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو دبانے کی غرض سے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ کشمیر میں بار بار وحشیانہ مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے اور بھارتی فوجیوں کی طرف سے جعلی مقابلوں میں بے گناہ لوگوں کو شہید کرنا مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک معمول بن چکا ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے لیکن بھارتی مظالم کشمیریوں کے عزم کو توڑنہیں سکتے کیونکہ ان مظالم سے کشمیریوں کا جذبہ آزادی مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور دنیا کو مجبور کریں کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کی منظم نسل کشی اور قتل عام جاری ہے اور بھارت کے 5 اگست کے تمام اقدامات غیرقانونی، غاصبانہ ہیں، نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنز کے استعمال، گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر، اقوام متحدہ کے تحت کمیشن آف انکوائری تشکیل دے کربھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی تحقیقات کروائی جائیں اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا دباؤ بڑھائیں اور اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔ مقبو ضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں پر عالمی برادری کی خاموشی کا کو ئی جواز نہیں ہے۔بے گناہ کشمیریو ں کی شہادت اور مسلسل کرفیو پر عالمی برادری کی خاموشی انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ ظلم و جبر سے کشمیرعوام کے حق خود ارادیت کو دبا یا نہیں جا سکتا۔کشمیری عوام نے اپنے خون سے تحریک آزادی کو نئی جلا بخشی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے دعویدار وں کو جانے کیوں مقبو ضہ کشمیر میں انسا نی حقو ق کی پامالیاں نظر نہیں آتی۔جہاں -4افراد پر ایک فوجی تعینات ہے۔مختلف کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔حا لانکہ کشمیریوں کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے۔ جس کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ حق خود ارادیت کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔جس کے لئے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداودں میں اس مسئلہ کشمیرکو متنازعہ قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر بھارت عالمی برادری کی سرپرستی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کی ایک تا ریخ ہے۔ جس کے لئے انہوں نے اپنی جوا نیاں قربان کیں۔اب کشمیریوں کی چوتھی نسل قربان ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سنگین قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ کشمیری گذشتہ کئی دہائیوں سے بدترین انسا نی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ اب عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر یوں کے لئے اپنی آواز بلند کریں اور بھارتی فورسزکی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی پامالیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں